(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، ان سهل بن سعد الساعدي اخبره، ان عويمر بن اشقر العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي، فقال له: يا عاصم، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه؟ ام كيف يفعل؟ سل لي يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فسال عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى اهله جاءه عويمر، فقال له: يا عاصم، ماذا قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عاصم: لم تاتني بخير، قد كره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسالة التي سالته عنها، فقال عويمر: والله لا انتهي حتى اساله عنها، فاقبل عويمر حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو وسط الناس، فقال: يا رسول الله، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه؟ ام كيف يفعل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد انزل فيك وفي صاحبتك قرآن، فاذهب فات بها"، قال سهل: فتلاعنا وانا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما فرغا، قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها، فطلقها عويمر ثلاثا قبل ان يامره النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: فكانت تلك سنة المتلاعنين. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُوَيْمِرَ بْنَ أَشْقَرَ الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ؟ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عَاصِمٌ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ، قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَسْطَ النَّاسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ؟ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أُنْزِلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ قُرْآنٌ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا"، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا عُوَيْمِرٌ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے آ کر کہنے لگے: عاصم! ذرا بتاؤ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی (اجنبی) شخص کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے؟ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات گراں گزری، جب عاصم رضی اللہ عنہ گھر لوٹے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس آ کر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا فرمایا؟ تو عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے تم سے کوئی بھلائی نہیں ملی جس مسئلہ کے بارے میں، میں نے سوال کیا اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھ کر رہوں گا، وہ سیدھے آپ کے پاس پہنچ گئے اس وقت آپ لوگوں کے بیچ تشریف فرما تھے، عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ (اجنبی) آدمی کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر آپ لوگ اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیں گے، یا وہ کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق قرآن نازل ہوا ہے لہٰذا اسے لے کر آؤ“، سہل کا بیان ہے کہ ان دونوں نے لعان ۱؎ کیا، اس وقت میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، جب وہ (لعان سے) فارغ ہو گئے تو عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں اسے اپنے پاس رکھوں تو (گویا) میں نے جھوٹ کہا ہے چنانچہ عویمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پہلے ہی اسے تین طلاق دے دی۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: تو یہی (ان دونوں) لعان کرنے والوں کا طریقہ بن گیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 44 (423)، تفسیر سورة النور 1 (4745)، 2 (4746)، الطلاق 4 (5259)، 29 (5308)، 30 (5309)، الحدود 43 (6854)، الأحکام 18 (7166)، الاعتصام 5 (7304)، صحیح مسلم/اللعان 1(1492)، سنن النسائی/الطلاق 35 (3496)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 27 (2066)، (تحفة الأشراف: 4805)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق 13(34)، مسند احمد (5/330، 334، 336، 337) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: لعان کا مطلب کسی عدالت میں یا کسی حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہے یا یہ بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اللہ کی اس پر لعنت ہو، اب خاوند کے جواب میں بیوی بھی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے اور میں جھوٹی ہوں تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، ایسا کہنے سے خاوند حد قذف سے بچ جائے گا اور بیوی زنا کی سزا سے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہو جائے گی۔
Sahl bin Saad Al Saeedi said that ‘Uwaimir bin Ashqar Al Ajilani came to Asim bin Adl and said to him “Asim tell me about a man who finds a man along with his wife. Should he kill him and then be killed by you, or how should he act? Ask the Messenger of Allah ﷺ Asim, for me about it. Asim then asked the Messenger of Allah ﷺ about it. The Messenger of Allah ﷺ disliked the question and denounced it. What Asim heard from the Messenger of Allah ﷺ fell heavy on him. When Asim returned to his family ‘Uwaimr came to him and asked Asim “What did the Messenger of Allah ﷺ say to you”? Asim replied “You did not do good to me”. The Messenger of Allah ﷺ disliked the question that I asked him. Thereupon ‘Uwaimir said “I swear by Allaah, I shall not leave until I ask him about it. So, ‘Uwaimir came to the Messenger of Allah ﷺ while he was sitting in the midst of the people. ” He said “Messenger of Allah ﷺ tell me about a man who finds a man along with his wife. Should he kill him and then be killed by you, or how should he act?” The Messenger of Allah ﷺ said “A revelation has been sent down about you and your wife so go away and bring her. Sahl said “So we cursed one another while I was along with the people who were with the Messenger of Allah ﷺ. Then when they finished, ‘Umamir said “I shall have lied against her, Messenger of Allah ﷺ if I keep her. He pronounced her divorce three times before the Messenger of Allah ﷺcommanded him (to do so). Ibn Shihab said “Then this became the method of invoking curses. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2237
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح،حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن سهل بن سعد الساعدي، قال: حضرت لعانهما عند النبي صلى الله عليه وسلم وانا ابن خمس عشرة سنة، وساق الحديث، قال فيه: ثم خرجت حاملا، فكان الولد يدعى إلى امه. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ،حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: حَضَرْتُ لِعَانَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ خَرَجَتْ حَامِلًا، فَكَانَ الْوَلَدُ يُدْعَى إِلَى أُمِّهِ.
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان دونوں کے لعان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود رہا اور میں پندرہ سال کا تھا، پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی لیکن اس میں اتنا اضافہ کیا کہ ”پھر وہ عورت حاملہ نکلی چنانچہ لڑکے کو اس کی ماں کی جانب منسوب کر کے پکارا جاتا تھا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، وانظر حدیث رقم (2245)، (تحفة الأشراف: 4805) (صحیح)»
Sahl bin Saad Al Saeedi said “I attended the invoking of the curses with the Messenger of Allah ﷺ when I was fifteen. He then narrated the rest of the tradition. In this version he said “She then came out pregnant and the child was ascribed to its mother.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2239
(مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر الوركاني، اخبرنا إبراهيم يعني ابن سعد، عن الزهري، عن سهل بن سعد في خبر المتلاعنين، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابصروها، فإن جاءت به ادعج العينين عظيم الاليتين، فلا اراه إلا قد صدق، وإن جاءت به احيمر كانه وحرة، فلا اراه إلا كاذبا"، قال: فجاءت به على النعت المكروه. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرَكَانِيُّ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فِي خَبَرِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ، فَلَا أُرَاهُ إِلَّا كَاذِبًا"، قَالَ: فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الْمَكْرُوهِ.
لعان والی حدیث میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت پر نظر رکھو اگر بچہ سیاہ آنکھوں والا، بڑی سرینوں والا ہو تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ اس (شوہر) نے سچ کہا ہے، اور اگر سرخ رنگ گیرو کی طرح ہو تو میں سمجھتا ہوں کی وہ جھوٹا ہے“، چنانچہ اس کا بچہ ناپسندیدہ صفت پر پیدا ہوا۔
Sahl bin Saad reported the Messenger of Allah ﷺ as saying - in the tradition of spouses who invoked curses to each other “Look if she bears a child which has very black eyes, large buttocks, I cannot but imagine that he (i. e., ‘Uwaimir) has spoken the truth. But, if she bears a reddish child like the lizard with red spots (waharah), I cannot imagine that ‘Uwaimir has lied against her. She gave birth to a child (like that described the Prophet ﷺ ) in a detestable manner.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2240
The tradition mentioned above has also been transmitted by Sahl bin Saad Al Saeedi through a different chain of narrators. This version adds the child was attributed to its mother.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2241
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح، حدثنا ابن وهب، عن عياض بن عبد الله الفهري، وغيره، عن ابن شهاب، عن سهل بن سعد، في هذا الخبر، قال: فطلقها ثلاث تطليقات عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانفذه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان ما صنع عند النبي صلى الله عليه وسلم سنة، قال سهل: حضرت هذا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمضت السنة بعد في المتلاعنين ان يفرق بينهما ثم لا يجتمعان ابدا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْفِهْرِيِّ، وَغَيْرِهِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُنَّةٌ، قَالَ سَهْلٌ: حَضَرْتُ هَذَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَضَتِ السُّنَّةُ بَعْدُ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَنْ يُفَرَّقَ بَيْنَهُمَا ثُمَّ لَا يَجْتَمِعَانِ أَبَدًا.
اس سند سے بھی سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: انہوں (عاصم بن عدی) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اسے تین طلاق دے دی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نافذ فرما دیا، اور جو کام آپ کی موجودگی میں کیا گیا ہو وہ سنت ہے۔ سہل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت میں موجود تھا، اس کے بعد لعان کرنے والے مرد اور عورت کے سلسلہ میں طریقہ ہی یہ ہو گیا کہ انہیں جدا کر دیا جائے، اور وہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہ ہوں۔
The tradition mentioned above has also been transmitted by Sahl bin Saad Al Saeedi through a different chain of narrators. This version has “He divorced her three times before the Messenger of Allah ﷺ. The Messenger of Allah ﷺ implemented it and what is done before the Prophet ﷺ is sunnah (model behavior of the Prophet). Sahl said “I attended this before the Messenger of Allah ﷺ. Afterwards the sunnah about those who invoked curses on each other was established that they (the spouses) were separated from each other and they would never be united. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2242
(مرفوع) حدثنا مسدد، ووهب بن بيان، واحمد بن عمرو بن السرح، وعمرو بن عثمان، قالوا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سهل بن سعد، قال مسدد: قال:" شهدت المتلاعنين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا ابن خمس عشرة، ففرق بينهما رسول الله صلى الله عليه وسلم حين تلاعنا"، وتم حديث مسدد، وقال الآخرون: إنه شهد النبي صلى الله عليه وسلم فرق بين المتلاعنين، فقال الرجل: كذبت عليها يا رسول الله، إن امسكتها، لم يقل بعضهم: عليها. قال ابو داود: لم يتابع ابن عيينة احد على انه فرق بين المتلاعنين. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَوَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَعَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ:" شَهِدْتُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ، فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تَلَاعَنَا"، وَتَمَّ حَدِيثُ مُسَدَّدٍ، وَقَالَ الْآخَرُونَ: إِنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا، لَمْ يَقُلْ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يُتَابِعْ ابْنَ عُيَيْنَةَ أَحَدٌ عَلَى أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ.
سہل بن سعد رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دونوں لعان کرنے والوں کے پاس موجود تھا، اور میں پندرہ سال کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان لعان کے بعد جدائی کرا دی، یہاں مسدد کی روایت پوری ہو گئی، دیگر لوگوں کی روایت میں ہے کہ: ”وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ نے دونوں لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کرا دی تو مرد کہنے لگا: اللہ کے رسول! اگر میں اسے رکھوں تو میں نے اس پر بہتان لگایا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ سفیان ابن عیینہ کی کسی نے اس بات پر متابعت نہیں کی کہ: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کرا دی“۔
Sahl bin Saad said “The version of Musaddad has “I witnessed the invoking of curses by the two spouses during the life time of the Messenger of Allah ﷺ when I was fifteen years old. When they finished invoking curses, the Messenger of Allah ﷺ separated them from each other. Here ends the version of Musaddad. Others said “He was present when the Prophet ﷺ separated the spouses who invoked curses on each other. The man (Sahl) said “I shall have lied against her, Messenger of Allah ﷺ if I keep her. Abu Dawud said “Some narrators did not mention the word ‘alaiha (against her). ” Abu Dawud said “No one supported Ibn ‘Uyainah that he separated the spouses who invoked curses. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2243
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود العتكي، حدثنا فليح، عن الزهري، عن سهل بن سعد، في هذا الحديث، وكانت حاملا، فانكر حملها، فكان ابنها يدعى إليها، ثم جرت السنة في الميراث، ان يرثها وترث منه ما فرض الله عز وجل لها. (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَكَانَتْ حَامِلًا، فَأَنْكَرَ حَمْلَهَا، فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمِيرَاثِ، أَنْ يَرِثَهَا وَتَرِثَ مِنْهُ مَا فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهَا.
اس سند سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ: ”وہ عورت حاملہ تھی اور اس نے اس کے حمل کا انکار کیا، چنانچہ اس عورت کا بیٹا اسی طرف منسوب کر کے پکارا جاتا تھا، اس کے بعد میراث میں بھی یہی طریقہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصہ میں ماں لڑکے کی وارث ہوتی اور لڑکا ماں کا وارث ہوتا“۔
The tradition mentioned above has also been transmitted by Sahl bin Saad through a different chain of narrators. This version has “She was pregnant, he denied pregnancy from him. So her son was attributed to her. In the law of succession the practice (sunnah) was established that the son gets a share in the inheritance of his mother and the mother gets the share in the inheritance of her son according to the shares prescribed by Allaah the Exalted.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2244
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود، قال: إنا لليلة جمعة في المسجد، إذ دخل رجل من الانصار في المسجد، فقال: لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا فتكلم به، جلدتموه؟ او قتل، قتلتموه؟ فإن سكت سكت على غيظ، والله لاسالن عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما كان من الغد، اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله، فقال: لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا فتكلم به، جلدتموه؟ او قتل، قتلتموه؟ او سكت سكت على غيظ؟ فقال:" اللهم افتح"، وجعل يدعو فنزلت آية اللعان: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم سورة النور آية 6 هذه الآية، فابتلي به ذلك الرجل من بين الناس، فجاء هو وامراته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فتلاعنا، فشهد الرجل اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، ثم لعن الخامسة عليه إن كان من الكاذبين، قال: فذهبت لتلتعن، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" مه"، فابت، ففعلت، فلما ادبرا، قال:" لعلها ان تجيء به اسود جعدا"، فجاءت به اسود جعدا. (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: إِنَّا لَلَيْلَةُ جُمْعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَتَكَلَّمَ بِهِ، جَلَدْتُمُوهُ؟ أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ؟ فَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، وَاللَّهِ لَأَسْأَلَنَّ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَتَكَلَّمَ بِهِ، جَلَدْتُمُوهُ؟ أَوْ قَتَلَ، قَتَلْتُمُوهُ؟ أَوْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ؟ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ افْتَحْ"، وَجَعَلَ يَدْعُو فَنَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ سورة النور آية 6 هَذِهِ الْآيَةَ، فَابْتُلِيَ بِهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَجَاءَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَاعَنَا، فَشَهِدَ الرَّجُلُ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ لَعَنَ الْخَامِسَةَ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، قَالَ: فَذَهَبَتْ لِتَلْتَعِنَ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَهْ"، فَأَبَتْ، فَفَعَلَتْ، فَلَمَّا أَدْبَرَا، قَالَ:" لَعَلَّهَا أَنْ تَجِيءَ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا"، فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں (ایک دفعہ) جمعہ کی رات مسجد میں تھا کہ اچانک انصار کا ایک شخص مسجد میں آیا، اور کہنے لگا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (اجنبی) آدمی کو پا لے اور (حقیقت حال) بیان کرے تو تم لوگ اسے کوڑے لگاؤ گے، یا وہ قتل کر دے تو اس کے بدلے میں تم لوگ اسے قتل کر دو گے، اور اگر وہ چپ رہے تو اندر ہی اندر غصہ میں جلے بھنے، اللہ کی قسم، میں اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور دریافت کروں گا، چنانچہ جب دوسرا دن ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی (اجنبی) آدمی کو پا لے اور حقیقت حال بیان کرے تو (تہمت کی حد کے طور پر) آپ اسے کوڑے لگائیں گے، یا وہ قتل کر دے تو اسے قتل کر دیں گے، یا وہ خاموشی اختیار کر کے اندر ہی غصہ سے جلے بھنے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرنے لگے: ”اے اللہ! معاملے کی وضاحت فرما دے“، چنانچہ لعان کی آیت «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم»”اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں“(سورۃ النور: ۶) آخر تک نازل ہوئی تو لوگوں میں یہی شخص اس مصیبت میں مبتلا ہوا چنانچہ وہ دونوں میاں بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نے لعان کیا، اس آدمی نے چار بار اللہ کا نام لے کر اپنے سچے ہونے کی گواہی دی، اور پانچویں بار کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر عورت لعان کرنے چلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو“، لیکن وہ نہیں مانی اور لعان کر ہی لیا، تو جب وہ دونوں جانے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید یہ عورت کالا گھنگرالے بالوں والا بچہ جنم دے“ چنانچہ اس نے وہ کالا اور گھنگرالے بالوں والا بچہ ہی جنم دیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللعان 10 (1495)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 27 (2068)، (تحفة الأشراف: 9425)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/421، 448) (صحیح)»
Abdullah (bin Masud) said “We were in the mosque on the night of a Friday, suddenly a man from the Ansar entered the mosque”. And said “If a man finds a man along with wife and declares (about her adultery) you will flog him. Or if he kills you, you will kill him or if keeps silence he will keep silence in anger. I swear by Allaah, I shall ask the Messenger of Allah ﷺ about it”. On the next day he came to the Messenger of Allah ﷺ and said “If a man finds a man along with wife and declares (about her adultery) you will flog him. Or if he kills you, you will kill him or if keeps silence he will keep silence in anger. ” He said “O Allaah, disclose”. He kept on praying until the verses regarding invoking curses (li’an) came down “As for those who accuse their wives but have no witnesses except themselves. ” So, the man was first involved in this trial among the people. He and his wife came to the Messenger of Allah ﷺ. They invoked curses on each other. The man bore witness before Allaah four times that the thing he said was indeed true. He then invoked curse of Allaah on him for the fifth time if he was a liar. She then wanted to invoke curses of Allaah on him. The Prophet ﷺ said “Do not do that. Bust she refused and did so (i. e., invoked curses). When they returned he said “Perhaps she will give birth to a black child with curly hair.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2245
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، اخبرنا هشام بن حسان، حدثني عكرمة، عن ابن عباس، ان هلال بن امية قذف امراته عند رسول الله صلى الله عليه وسلم بشريك بن سحماء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" البينة، او حد في ظهرك"، قال: يا رسول الله، إذا راى احدنا رجلا على امراته يلتمس البينة، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" البينة، وإلا فحد في ظهرك"، فقال هلال: والذي بعثك بالحق نبيا، إني لصادق، ولينزلن الله في امري ما يبرئ به ظهري من الحد، فنزلت: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم فقرا حتى بلغ لمن الصادقين سورة النور آية 6، فانصرف النبي صلى الله عليه وسلم، فارسل إليهما، فجاءا، فقام هلال بن امية فشهد والنبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" الله يعلم ان احدكما كاذب، فهل منكما من تائب؟" ثم قامت، فشهدت، فلما كان عند الخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، وقالوا لها: إنها موجبة، قال ابن عباس: فتلكات ونكصت حتى ظننا انها سترجع، فقالت: لا افضح قومي سائر اليوم، فمضت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ابصروها، فإن جاءت به اكحل العينين سابغ الاليتين خدلج الساقين فهو لشريك ابن سحماء"، فجاءت به كذلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لولا ما مضى من كتاب الله، لكان لي ولها شان". قال ابو داود: وهذا مما تفرد به اهل المدينة، حديث ابن بشار، حديث هلال. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ بْنِ سَحْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْبَيِّنَةُ، أَوْ حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلًا عَلَى امْرَأَتِهِ يَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْبَيِّنَةُ، وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، فَقَالَ هِلَالٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا، إِنِّي لَصَادِقٌ، وَلَيُنْزِلَنَّ اللَّهُ فِي أَمْرِي مَا يُبْرِئُ بِهِ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَتْ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ لَمِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 6، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَجَاءَا، فَقَامَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا مِنْ تَائِبٍ؟" ثُمَّ قَامَتْ، فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْخَامِسَةِ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، وَقَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَصَتْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهَا سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَمَضَتْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ"، فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا مِمَّا تَفَرَّدَ بِهِ أَهْلُ الْمَدِينَةِ، حَدِيثُ ابْنِ بَشَّارٍ، حَدِيثُ هِلَالٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ (زنا کی) تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ثبوت لاؤ ورنہ پیٹھ پر کوڑے لگیں گے“، تو ہلال نے کہا کہ: اللہ کے رسول! جب ہم میں سے کوئی شخص کسی آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھے تو وہ گواہ ڈھونڈنے جائے؟ اس پر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرمائے جا رہے تھے کہ: ”گواہ لاؤ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے پڑیں گے“، تو ہلال نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے میں بالکل سچا ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میرے بارے میں وحی نازل کر کے میری پیٹھ کو حد سے بری کرے گا، چنانچہ «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» کی آیت نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھا یہاں تک کہ آپ پڑھتے پڑھتے «من الصادقين»۱؎ تک پہنچے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے اور آپ نے ان دونوں کو بلوایا، وہ دونوں آئے، پہلے ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہی دینے لگے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے، تو کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنے والا ہے؟“ پھر عورت کھڑی ہوئی اور گواہی دینے لگی، پانچویں بار میں جب ان الفاظ کے کہنے کی باری آئی کہ ”اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو“ تو لوگ اس سے کہنے لگے: یہ عذاب کو واجب کر دینے والا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: تو وہ ہچکچائی اور ہٹ گئی اور ہمیں یہ گمان ہوا کہ وہ باز آ جائے گی، لیکن پھر کہنے لگی: ہمیشہ کے لیے میں اپنی قوم پر رسوائی کا داغ نہ لگاؤں گی (یہ کہہ کر) اس نے آخری جملہ کو بھی ادا کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو اس کا ہونے والا بچہ اگر سرمگیں آنکھوں، بڑی سرینوں اور موٹی پنڈلیوں والا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا ہے“، چنانچہ انہیں صفات کا بچہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب کا فیصلہ نہ آ گیا ہوتا تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا“، یعنی میں اس پر حد جاری کرتا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر سورة النور (3179)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 27 (2067)، مسند احمد (1/273)، (تحفة الأشراف: 6225)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة النور 2 (4746)، الطلاق 29 (5308) (صحیح)»
Ibn Abbas said “Hilal bin Umayyah accused his wife in the presence of Prophet ﷺ of having committed adultery with Sharik bin Sahma’”. The Prophet ﷺ said “Produce evidence or you must receive punishment on your back. ” He said “Messenger of Allah ﷺ when one of us sees a man having intercourse with his wife should he go and seek evidence?” But the Prophet ﷺ merely said “You must produce evidence or you must receive punishment on your back. ” Hilal then said “By Him Who sent you with the Truth, I am speaking Truly. May Allaah send down something which will free my back from punishment. Then the following Quranic verses were revealed “And those who make charges against their spouses but have no witnesses except themselves” reciting till he reached “one of those who speak the truth”. The Prophet ﷺ then returned and sent for them and they came (to him). Hilal bin Umayyah stood up and testified and the Prophet ﷺ was saying “Allaah knows that one of you is lying. Will one of you repent?” Then the woman got up and testified, but when she was about to do it a fifth time saying that Allaah’s anger be upon her if he was one of those who spoke the truth, they said to her “this is the deciding one”. Ibn Abbas said “She then hesitated and drew back so that we thought the she would withdraw (what she said) “Look and see whether she gives birth to a child with eyes looking as if they have antimony in them, wide buttocks and fat legs, if she did. Sharik bin Sahma’ will be its father. She then gave birth to a child of a similar description. The Prophet ﷺ thereupon said “If it were not for what has already been stated in Allaah’s book I would have dealt severely with her. ” Abu Dawud said “This tradition has been transmitted by the people of Madina alone. They narrated the tradition of Hilal on the authority of Ibn Bashshar. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2246
(مرفوع) حدثنا مخلد بن خالد الشعيري، حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن ابيه، عن ابن عباس،" ان النبي صلى الله عليه وسلم امر رجلا حين امر المتلاعنين ان يتلاعنا ان يضع يده على فيه عند الخامسة، يقول: إنها موجبة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشُّعَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلًا حِينَ أَمَرَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ أَنْ يَتَلَاعَنَا أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فِيهِ عِنْدَ الْخَامِسَةِ، يَقُولُ: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت دونوں کو لعان کا حکم فرمایا تو ایک شخص کو حکم دیا کہ پانچویں بار میں اپنا ہاتھ مرد کے منہ پر رکھ دے اور کہے: یہ (عذاب کو) واجب کرنے والا ہے۔
Narrated Abdullah ibn Abbas: When the Prophet ﷺ ordered a man and his wife to invoke curses on each other, he ordered a man to put his hand on his mouth when he came to the fifth utterance, saying that it would be the deciding one.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2247
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا عباد بن منصور، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: جاء هلال بن امية وهو احد الثلاثة الذين تاب الله عليهم، فجاء من ارضه عشيا، فوجد عند اهله رجلا فراى بعينه وسمع باذنه، فلم يهجه حتى اصبح، ثم غدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني جئت اهلي عشاء فوجدت عندهم رجلا، فرايت بعيني وسمعت باذني، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ما جاء به واشتد عليه، فنزلت: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم فشهادة احدهم سورة النور آية 6، الآيتين كلتيهما، فسري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ابشر يا هلال، قد جعل الله عز وجل لك فرجا ومخرجا"، قال هلال: قد كنت ارجو ذلك من ربي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارسلوا إليها"، فجاءت، فتلاها عليهما رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكرهما واخبرهما ان عذاب الآخرة اشد من عذاب الدنيا، فقال هلال: والله لقد صدقت عليها، فقالت: قد كذب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لاعنوا بينهما"، فقيل لهلال: اشهد، فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، فلما كانت الخامسة، قيل له: يا هلال اتق الله، فإن عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، وإن هذه الموجبة التي توجب عليك العذاب، فقال: والله لا يعذبني الله عليها كما لم يجلدني عليها، فشهد الخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم قيل لها: اشهدي، فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين، فلما كانت الخامسة، قيل لها: اتقي الله، فإن عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، وإن هذه الموجبة التي توجب عليك العذاب، فتلكات ساعة، ثم قالت: والله لا افضح قومي، فشهدت الخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما، وقضى ان لا يدعى ولدها لاب ولا ترمى ولا يرمى ولدها، ومن رماها او رمى ولدها فعليه الحد، وقضى ان لا بيت لها عليه، ولا قوت من اجل انهما يتفرقان من غير طلاق ولا متوفى عنها، وقال:" إن جاءت به اصيهب اريصح اثيبج حمش الساقين، فهو لهلال، وإن جاءت به اورق جعدا جماليا خدلج الساقين سابغ الاليتين، فهو للذي رميت به"، فجاءت به اورق جعدا جماليا خدلج الساقين سابغ الاليتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لولا الايمان، لكان لي ولها شان". قال عكرمة: فكان بعد ذلك اميرا على مضر، وما يدعى لاب. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَاءَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ، فَجَاءَ مِنْ أَرْضِهِ عَشِيًّا، فَوَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ رَجُلًا فَرَأَى بِعَيْنِهِ وَسَمِعَ بِأُذُنِهِ، فَلَمْ يَهِجْهُ حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي جِئْتُ أَهْلِي عِشَاءً فَوَجَدْتُ عِنْدَهُمْ رَجُلًا، فَرَأَيْتُ بِعَيْنَيَّ وَسَمِعْتُ بِأُذُنَيَّ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا جَاءَ بِهِ وَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، فَنَزَلَتْ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ سورة النور آية 6، الْآيَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا، فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَبْشِرْ يَا هِلَالُ، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا"، قَالَ هِلَالٌ: قَدْ كُنْتُ أَرْجُو ذَلِكَ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرْسِلُوا إِلَيْهَا"، فَجَاءَتْ، فَتَلَاهَا عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَّرَهُمَا وَأَخْبَرَهُمَا أَنَّ عَذَابَ الْآخِرَةِ أَشَدُّ مِنْ عَذَابِ الدُّنْيَا، فَقَالَ هِلَالٌ: وَاللَّهِ لَقَدْ صَدَقْتُ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: قَدْ كَذَبَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَاعِنُوا بَيْنَهُمَا"، فَقِيلَ لِهِلَالٍ: اشْهَدْ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ، قِيلَ لَهُ: يَا هِلَالُ اتَّقِ اللَّهَ، فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكَ الْعَذَابَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا يُعَذِّبُنِي اللَّهُ عَلَيْهَا كَمَا لَمْ يُجَلِّدْنِي عَلَيْهَا، فَشَهِدَ الْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ قِيلَ لَهَا: اشْهَدِي، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ، قِيلَ لَهَا: اتَّقِي اللَّهَ، فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْمُوجِبَةُ الَّتِي تُوجِبُ عَلَيْكِ الْعَذَابَ، فَتَلَكَّأَتْ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللَّهِ لَا أَفْضَحُ قَوْمِي، فَشَهِدَتِ الْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَقَضَى أَنْ لَا يُدْعَى وَلَدُهَا لِأَبٍ وَلَا تُرْمَى وَلَا يُرْمَى وَلَدُهَا، وَمَنْ رَمَاهَا أَوْ رَمَى وَلَدَهَا فَعَلَيْهِ الْحَدُّ، وَقَضَى أَنْ لَا بَيْتَ لَهَا عَلَيْهِ، وَلَا قُوتَ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُمَا يَتَفَرَّقَانِ مِنْ غَيْرِ طَلَاقٍ وَلَا مُتَوَفَّى عَنْهَا، وَقَالَ:" إِنْ جَاءَتْ بِهِ أُصَيْهِبَ أُرَيْصِحَ أُثُيْبِجَ حَمْشَ السَّاقَيْنِ، فَهُوَ لِهِلَالٍ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جُمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَهُوَ لِلَّذِي رُمِيَتْ بِهِ"، فَجَاءَتْ بِهِ أَوْرَقَ جَعْدًا جَمَالِيًّا خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا الْأَيْمَانُ، لَكَانَ لِي وَلَهَا شَأْنٌ". قَالَ عِكْرِمَةُ: فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَمِيرًا عَلَى مُضَرَ، وَمَا يُدْعَى لِأَبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ (جو کہ ان تین اشخاص میں سے ایک تھے جن کی اللہ تعالیٰ نے (ایک غزوہ میں پچھڑ جانے کی وجہ سے سرزنش کے بعد) توبہ قبول فرمائی تھی، وہ) اپنی زمین سے رات کو آئے تو اپنی بیوی کے پاس ایک آدمی کو پایا، اپنی آنکھوں سے سارا منظر دیکھا، اور کانوں سے پوری گفتگو سنی، لیکن صبح تک اس معاملہ کو دبا کر رکھا، صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! رات کو میں گھر آیا تو اپنی بیوی کے پاس ایک مرد کو پایا، اپنی آنکھوں سے (سب کچھ) دیکھا، اور کانوں سے (سب) سنا، ان کی ان باتوں کو آپ نے ناپسند کیا اور ان پر ناگواری کا اظہار فرمایا، تو یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم فشهادة أحدهم»”اور جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ بجز ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو“(سورۃ النور: ۷، ۶) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب وحی کی کیفیت دور ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”ہلال! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کا راستہ نکال دیا ہے“، ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اپنے پروردگار سے اسی کی امید تھی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بلواؤ“، تو وہ آئی تو آپ نے دونوں پر یہ آیتیں تلاوت فرمائیں، اور نصیحت کی نیز بتایا کہ: ”آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے بہت سخت ہے“۔ ہلال رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے اس کے متعلق جو کہا ہے سچ کہا ہے، وہ کہنے لگی: یہ جھوٹے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے درمیان لعان کراؤ“، چنانچہ ہلال رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ وہ گواہی دیں تو انہوں نے چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دی کہ وہ سچے ہیں، پانچویں کے وقت کہا گیا: ہلال! اللہ سے ڈرو کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے، اور اس بار کی گواہی تمہارے لیے عذاب کو واجب کر دے گی، وہ بولے: اللہ کی قسم! جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے کوڑوں سے بچایا ہے اسی طرح عذاب سے بھی بچائے گا، چنانچہ پانچویں گواہی بھی دے دی کہ اگر وہ جھوٹے ہوں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر عورت سے گواہی دینے کے لیے کہا گیا، تو اس نے بھی چار بار گواہی دی کہ وہ جھوٹے ہیں، پانچویں بار اس سے بھی کہا گیا کہ اللہ سے ڈر جا کیونکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلے میں بہت آسان ہے، اور اس دفعہ کی گواہی عذاب کو واجب کر دے گی، یہ سن کر وہ ایک لمحہ کے لیے ہچکچائی پھر بولی: اللہ کی قسم میں اپنی قوم کو رسوا نہ کروں گی، چنانچہ پانچویں بار بھی گواہی دے دی کہ اگر وہ سچے ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان تفریق کرا دی، اور فیصلہ فرمایا کہ اس کا لڑکا باپ کی طرف نہ منسوب کیا جائے، اور لڑکے اور عورت کو تہمت نہ لگائی جائے جو اس پر یا اس کے لڑکے پر اب تہمت لگائے گا تو اس پر تہمت کی حد جاری کی جائے گی، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ اسے نان نفقہ اور رہائش نہیں ملے گی، کیونکہ ان کی جدائی نہ تو طلاق کی بنا پر ہوئی ہے اور نہ شوہر کے انتقال کی وجہ سے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ بھورے بالوں والا، پتلی سرین والا، چوڑی پیٹھ والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنے تو وہ ہلال کا (نطفہ) ہے، اور اگر مٹیالے رنگ والا، گھنگرالے بالوں والا، موٹی پنڈلیوں والا، اور بھاری سرین والا جنے تو اس کا جس کے نام کی تہمت لگائی گئی ہے“، چنانچہ اس عورت کا بچہ مٹیالے رنگ کا گھنگرالے بالوں والا، موٹی پنڈلیوں والا اور بھاری سرین والا پیدا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر قسمیں نہ ہوتیں تو میرا اور اس کا معاملہ کچھ اور ہوتا“۔ عکرمہ کہتے ہیں: یہی بچہ آگے چل کر مضر کا امیر بنا، اسے باپ کی جانب منسوب نہیں کیا جاتا تھا۔
تخریج الحدیث: «وانظر حدیث رقم (2254)، (تحفة الأشراف: 6139)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/238، 245) (ضعیف)» (اس کے راوی عباد بن منصور کی اکثر ائمہ نے تضعیف کی ہے اس لئے ان کی اس روایت کے جن بیانات کی متابعت سابقہ حدیث سے ہو جاتی ہے انہیں کو لیا جائیگا اور باقی منفرد بیانات سے قطع نظر کیا جائے گا)
Ibn Abbas said “Hilal bin Umayyah was one of the three persons whose repentance was accepted by Allaah. One night he returned from his land and found a man along with his wife. He witnessed with his eyes and heard with his ears. He did not threaten him till the morning. ” Next day he went to the Messenger of Allah ﷺ in the morning and said Messenger of Allah ﷺ “I came to my wife in the night and found a man along with her. I saw with my own eyes and heard with my own ears. The Messenger of Allah ﷺ disliked what he described and he took it seriously. There upon the following Quranic verse came down “And those who make charges against their spouses but have no witnesses except themselves, let the testimony of one of them. . . . ” When the Messenger of Allah ﷺ came to himself (after the revelation ended) he said “Glad tidings to you Hilal, Allaah the exalted has made ease and a way out for you. ” Hilal said “I expected that from my Lord. The Messenger of Allah ﷺ said “Send for her. She then came. ” The Messenger of Allah ﷺ recited the verses to them and he reminded them and told them that the punishment in the next world was more severe than that in n this world. Hilal said “I swear by Allah I spoke the truth against her. ” She said “He told a lie. ” The Messenger of Allah ﷺ said “Apply the method of invoking curses on one another. Hilal was told “Bear witness. So he bore witness before Allaah four times that he spoke the truth. ” When he was about to utter the fifth time he was told “Hilal fear Allah, for the punishment in this world is easier than that in the next world and this is the deciding one, that will surely cause punishment to you. ” He said “I swear by Allaah. Allah will not punish me for this (act), as He did not cause me to be flogged for this (act). ” So he bore witness a fifth time invoking the curse of Allah on him if he was of those who tell a lie. Then the people said to her, Testify. So she gave testimony before Allaah that he was a liar. When she was going to testify the fifth time she was told “Fear Allah, for the punishment in this world is easier than that in the next world. This is the deciding one that will surely cause punishment to you. ” She hesitated for a moment. And then said “By Allah, I will not disgrace my people. ” So she testified a fifth time invoking the curse of Allah on her if he spoke the truth. Messenger of Allah ﷺ separated them from each other and decided that the child will not be attributed to its father. Neither she nor her child will be accused of adultery. He who accuses her or her child will be liable to punishment. He also decided that there will be no dwelling and maintenance for her (from the husband) as they were separated without divorce and death. He then said “If she gives birth to a child with reddish hair, light buttocks, wide belly and light shins he will be the child of Hilal. If she bears a dusky child with curly hair, fat limbs, fat shins and fat buttocks he will be the child of the one who was accused of adultery. She gave birth to a child with curly hair, fat limbs, fat shins and fat buttocks. The Messenger of Allah ﷺ said “Had there been no oaths, I would have dealt with her severely. ” Ikrimah said “Later on he became the chief of the tribe of Mudar. He was not attributed to his father. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2248
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا سفيان بن عيينة، قال: سمع عمروسعيد بن جبير، يقول: سمعت ابن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للمتلاعنين:" حسابكما على الله، احدكما كاذب لا سبيل لك عليها"، قال: يا رسول الله، مالي؟ قال:" لا مال لك، إن كنت صدقت عليها فهو بما استحللت من فرجها، وإن كنت كذبت عليها فذلك ابعد لك". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعَ عَمْرٌوسَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمُتَلَاعِنَيْنِ:" حِسَابُكُمَا عَلَى اللَّهِ، أَحَدُكُمَا كَاذِبٌ لَا سَبِيلَ لَكَ عَلَيْهَا"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَالِي؟ قَالَ:" لَا مَالَ لَكَ، إِنْ كُنْتَ صَدَقْتَ عَلَيْهَا فَهُوَ بِمَا اسْتَحْلَلْتَ مِنْ فَرْجِهَا، وَإِنْ كُنْتَ كَذَبْتَ عَلَيْهَا فَذَلِكَ أَبْعَدُ لَكَ".
سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لعان کرنے والوں سے فرمایا: ”تم دونوں کا حساب اللہ پر ہے، تم میں سے ایک تو جھوٹا ہے ہی (مرد سے فرمایا) اب تجھے اس پر کچھ اختیار نہیں“، اس پر اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مال کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کوئی مال نہیں، اگر تم اس پر تہمت لگانے میں سچے ہو تو مال کے بدلے اس کی شرمگاہ حلال کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹ بولا ہے تب تو کسی طرح بھی تم مال کے مستحق نہیں“۔
Ibn Umar said “The Messenger of Allah ﷺ said to the spouses who invoked curses on each other. Your reckoning is in Allaah’s hands for one of you is liar there is no way for you to (remarry) her. He then asked Messenger of Allah ﷺ what about my property? He replied “There is no property for you. If you have spoken the truth, it is the price for your having had the right to intercourse with her and if you have lied against her it is still more remote for you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2249
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن حنبل، حدثنا إسماعيل، حدثنا ايوب، عن سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عمر: رجل قذف امراته، قال: فرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اخوي بني العجلان، وقال:" الله يعلم ان احدكما كاذب، فهل منكما تائب؟" يرددها ثلاث مرات، فابيا ففرق بينهما. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: رَجُلٌ قَذَفَ امْرَأَتَهُ، قَالَ: فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَخَوَيْ بَنِي الْعَجْلَانِ، وَقَالَ:" اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟" يُرَدِّدُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَأَبَيَا فَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جو کہا کہ ایک شخص اپنی عورت کو تہمت لگائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان کے دونوں بھائی بہنوں ۱؎ کو (اس صورت میں) جدا کرا دیا تھا اور فرمایا تھا: ”اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں ایک ضرور جھوٹا ہے، تو کیا تم دونوں میں کوئی توبہ کرنے والا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کو تین بار دہرایا لیکن ان دونوں نے انکار کیا تو آپ نے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی۔
وضاحت: ۱؎: مراد عویمر اور ان کی بیوی ہیں، اور دونوں کو «تغلیبا اخوین» کہا گیا ہے، اور ان دونوں پر «اخوة» کا اطلاق «إنما المؤمنون اخوة» کے اعتبار سے کیا گیا ہے۔
Saad bin Jubair said I asked Ibn Umar A man accused his wife of adultery? He said “The Messenger of Allah ﷺ separated the brother and the sister of Banu Al ‘Ajilan (i. e., husband and wife). He said Allaah knows that one of you is a liar, will one of you repent? He repeated these words three times, but they refused. So he separated them from each other.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2250
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر،" ان رجلا لاعن امراته في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم وانتفى من ولدها، ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما، والحق الولد بالمراة". قال ابو داود: الذي تفرد به مالك، قوله:" والحق الولد بالمراة". وقال يونس: عن الزهري، عن سهل بن سعد، في حديث اللعان،" وانكر حملها فكان ابنها يدعى إليها". (مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ،" أَنَّ رَجُلًا لَاعَنَ امْرَأَتَهُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا، فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ مَالِكٌ، قَوْلُهُ:" وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ". وقَالَ يُونُسُ: عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي حَدِيثِ اللِّعَانِ،" وَأَنْكَرَ حَمْلَهَا فَكَانَ ابْنُهَا يُدْعَى إِلَيْهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص نے اپنی عورت سے لعان کیا اور اس کے بچے کا باپ ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی، اور بچے کو عورت سے ملا دیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جس کی روایت میں مالک منفرد ہیں وہ «وألحق الولد بالمرأة» کا جملہ ہے، اور یونس نے زہری سے انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے لعان کی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے: اس نے اس کے حمل کا انکار کیا تو اس (عورت) کا بیٹا اسی (عورت) کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے نسب اور وراثت میں ماں سے ملا دیا لہٰذا وہ ماں ہی کی طرف منسوب کیا جائے گا اور ماں اور بیٹا دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے برخلاف باپ کے نہ تو اس کی طرف وہ منسوب ہو گا اور نہ وہ دونوں ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں۔
Ibn Umar said A man invoked curses on his wife (charging her of adultery) during the time of Messenger of Allah ﷺ and disowned the child. The Messenger of Allah ﷺ therefore separated them and attributed the child to the woman. Abu Dawud said “The words narrated by Malik alone are “and he attributed the child to the woman. ”" Abu Dawud said: The words narrated by Malik alone are: "and he attributed the child to the woman. " Yunus narrated from Al Zuhri on the authority of Sahl bin Saad in the tradition regarding li’an (invoking curses). He disowned her conception hence her child was attributed to her.
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2252