(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا عيسى، عن زكريا، عن ابي إسحاق، عن عاصم، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا اهل القرآن، اوتروا فإن الله وتر يحب الوتر". (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ، أَوْتِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قرآن والو! ۱؎ وتر پڑھا کرو اس لیے کہ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے“۔
وضاحت: ۱؎: یہاں اہل قرآن سے مراد قرّاء و حفاظ کی جماعت ہے نہ کہ عام مسلمان، اس سے علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ وتر واجب نہیں، اگر وتر واجب ہوتی تو یہ حکم عام ہوتا، اہل قرآن (یعنی قراء و حفاظ و علماء) کے ساتھ خاص نہ ہوتا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی سے «ليس لك ولا لأصحابك» جو فرمایا وہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، امام طیبی کے نزدیک وتر سے مراد تہجد ہے اسی لئے قراء سے خطاب فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 216، (453)، سنن النسائی/قیام اللیل 25 (1674)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 114 (1169)،(تحفة الأشراف:10135)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/86، 98، 100، 107، 110، 115، 120، 143، 144، 148)، سنن الدارمی/الصلاة 209 (1621) (صحیح)» (ابو اسحاق مختلط اور مدلس ہیں، اور عاصم میں قدرے کلام ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1416
1416. اردو حاشیہ: ➊ وتر کا اطلاق دو معانی پر ہوتا ہے۔ ایک نماز وتر جس کی تعداد ایک، تین اور پانچ، ہے۔ یہ نماز اگرچہ نفل ہے مگر از حد اہم اور تاکیدی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سفر میں بھی اس کا التزام فرمایا کرتے تھے۔ اس بنا پر بعض ائمہ اسے ”واجب“ کہتے ہیں۔ اور دوسرا معنی ”قیام اللیل اور تہجد“ ہے۔ چونکہ وتر کا اصل وقت اومر موقع یہی ہے۔ اس لیے اسے ”وتر“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں یہی دوسرا مفہوم متبادر ہے۔ روایت میں اس کا اشارہ موجود ہے۔ ➋ یہ ارشاد ”اہل اقرآن“ کو ہے اور تمام ہی مسلمان ”اہل قرآن“ ہیں مگر حفاظ اور علماء اس کے بالخصوص مخاطب ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1416