كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ فتنے اور علامات قیامت The Book of Tribulations and Portents of the Last Hour 19. باب ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ: باب: ابن صیاد کا بیان۔ Chapter: Ibn Sayyad حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم ، واللفظ لعثمان، قال إسحاق: اخبرنا، وقال عثمان: حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمررنا بصبيان فيهم ابن صياد، ففر الصبيان وجلس ابن صياد، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم كره ذلك، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " تربت يداك اتشهد اني رسول الله؟ "، فقال: لا بل تشهد اني رسول الله، فقال عمر بن الخطاب: ذرني يا رسول الله حتى اقتله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن يكن الذي ترى فلن تستطيع قتله ".حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَرْنَا بِصِبْيَانٍ فِيهِمْ ابْنُ صَيَّادٍ، فَفَرَّ الصِّبْيَانُ وَجَلَسَ ابْنُ صَيَّادٍ، فَكَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَرِبَتْ يَدَاكَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ "، فَقَالَ: لَا بَلْ تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ذَرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ حَتَّى أَقْتُلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَكُنِ الَّذِي تَرَى فَلَنْ تَسْتَطِيعَ قَتْلَهُ ". جریر نےاعمش سے، انھوں نے ابو وائل سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم چند لڑکوں کے پاس سے گزرے، ان میں ابن صیاد بھی تھا، سب بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھ گیا، تو ایسا لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ناپسند کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "تیرے ہاتھ خاک آلودہوں!کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟"اس نے کہا: نہیں۔بلکہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟" حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کو قتل کردوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر یہ وہی ہے جو تمہارا گمان ہے تو تم اس کو قتل نہیں کرسکوگے۔" حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے چنانچہ ہمارا گزر بچوں کے پاس سے ہوا جن میں ابن صیاد بھی تھا تو بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھا رہا۔ سو گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فعل کو پسند نہ کیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا:"تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟" تو اس نے کہا نہیں، بلکہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ سو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی،اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجیے تاکہ میں اس کو قتل کردوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر یہ وہی ہے جو تم سمجھتے ہو۔ یعنی دجال ہے تو تم اس کو قتل نہیں کر سکتے۔"(کیونکہ دجال کو حضرت عیسیٰ نے قتل کرنا ہے)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، وإسحاق بن إبراهيم ، وابو كريب ، واللفظ لابي كريب، قال ابن نمير: حدثنا، وقال الآخران: اخبرنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: كنا نمشي مع النبي صلى الله عليه وسلم، فمر بابن صياد، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد خبات لك خبيئا "، فقال: دخ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اخسا فلن تعدو قدرك "، فقال عمر: يا رسول الله، دعني فاضرب عنقه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دعه، فإن يكن الذي تخاف لن تستطيع قتله ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا "، فَقَالَ: دُخٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ "، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَعْهُ، فَإِنْ يَكُنِ الَّذِي تَخَافُ لَنْ تَسْتَطِيعَ قَتْلَهُ ". ابو معاویہ نے ہمیں خبر دی، کہا: ہمیں اعمش نے شقیق سے حدیث بیان کی۔انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہے تھے کہ ہم ابن صیاد کے پاس سے گزرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپائی ہے۔"وہ دُخَ ہے۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "دور دفع ہوجا!تو اپنی حیثیت سے کبھی نہیں بڑھ سکےگا۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےکہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے چھوڑ دو، اگر یہ وہی ہے جس کا تمھیں خوف ہے تو تم اس کو قتل نہیں کرسکوگے۔" حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہے تھے۔کہ آپ کا گزر ابن صیاد کے پاس سے ہوا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں نے تیرے (امتحان کے)لیے ایک چیز دل میں پوشیدہ رکھی ہے۔" اس نے کہا وہ دخ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ذلیل وخواررہ تو ہر گز اپنی حیثیت سے تجاوز نہیں کر سکے گا۔"چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے چھوڑئیے کہ میں اس کی گردن ماردوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اسے چھوڑئیے اگر یہ وہ ہے جس کا تمھیں اندیشہ ہے تو تم اسے قتل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا سالم بن نوح ، عن الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، قال: لقيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر وعمر في بعض طرق المدينة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتشهد اني رسول الله؟، فقال هو: اتشهد اني رسول الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " آمنت بالله وملائكته وكتبه، ما ترى؟ "، قال: ارى عرشا على الماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ترى عرش إبليس على البحر، وما ترى؟ "، قال: ارى صادقين وكاذبا او كاذبين، وصادقا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لبس عليه دعوه "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: لَقِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟، فَقَالَ هُوَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ، مَا تَرَى؟ "، قَالَ: أَرَى عَرْشًا عَلَى الْمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَى الْبَحْرِ، وَمَا تَرَى؟ "، قَالَ: أَرَى صَادِقَيْنِ وَكَاذِبًا أَوْ كَاذِبَيْنِ، وَصَادِقًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لُبِسَ عَلَيْهِ دَعُوهُ "، حریری نے ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: مدینہ کے ایک راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس (ابن صیاد) سے ملاقات ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "کیا تو یہ گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟"اس نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا؛"میں اللہ پر، اس کےفرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر ایمان لایا ہوں، تجھے کیا نظر آتا ہے؟"اس نے کہا: مجھے پانی پر ایک تخت نظر آتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سمندر پر ابلیس کا تخت دیکھ رہے ہو، تجھے اور کیا نظر آتا ہے؟"اس نے کہا: میں دو سچوں اور ایک جھوٹے کویا دو جھوٹوں اور ایک سچے کو د یکھتا ہوں۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (اس کا معاملہ خود) اس کے سامنے گڈ مڈ کردیاگیا ہے۔اسے چھوڑ د و۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدینہ کے کسی راستہ میں ابن صیاد سے ملاقات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:" کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔"تو اس نے جواباً آپ کا سوال دہرایا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں اللہ، اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں،تجھے کیا نظر آتا ہے؟ اس نے کہا مجھے پانی پر تخت نظر آتا ہے سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تجھے سمندر پر ابلیس کا تخت نظر آتا ہے تو اور کیا دیکھتا ہے؟"اس نے کہا میں دو سچے ایک چھوٹا یا دو جھوٹے اور ایک سچا دیکھتا ہوں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس پر اس کا معاملہ مشتبہ ہو گیا ہے۔ اسے چھوڑدو۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
معتمر کے والد (سلیمان) نے کہا: ہمیں ابو نضرہ نے حضر ت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، کہا کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابن صائد سے ملاقات ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے اور ابن صائد (دوسرے) لڑکوں کے ساتھ تھا، پھر جریری کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کو ملے اور ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، ومحمد بن المثنى ، قالا: حدثنا عبد الاعلى ، حدثنا داود ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: صحبت ابن صائد إلى مكة، فقال لي: " اما قد لقيت من الناس يزعمون اني الدجال؟ الست سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: إنه لا يولد له؟، قال: قلت: بلى، قال: فقد ولد لي، اوليس سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يدخل المدينة، ولا مكة؟ قلت: بلى، قال: فقد ولدت بالمدينة، وهذا انا اريد مكة، قال: ثم قال لي في آخر قوله: اما والله إني لاعلم مولده، ومكانه واين هو، قال: فلبسني ".حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: صَحِبْتُ ابْنَ صَائِدٍ إِلَى مَكَّةَ، فَقَالَ لِي: " أَمَا قَدْ لَقِيتُ مِنَ النَّاسِ يَزْعُمُونَ أَنِّي الدَّجَّالُ؟ أَلَسْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّهُ لَا يُولَدُ لَهُ؟، قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَقَدْ وُلِدَ لِي، أَوَلَيْسَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ، وَلَا مَكَّةَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَقَدْ وُلِدْتُ بِالْمَدِينَةِ، وَهَذَا أَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي فِي آخِرِ قَوْلِهِ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ مَوْلِدَهُ، وَمَكَانَهُ وَأَيْنَ هُوَ، قَالَ: فَلَبَسَنِي ". داود نے ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: مکہ کی طرف جاتے ہوئے (راستے میں) میرا اور ابن صیاد کاساتھ ہوگیا۔اس نے مجھ سے کہا: میں کچھ ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو سمجھتے ہیں کہ میں دجال ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سناتھا: "اس کے بچے نہیں ہوں گے"؟کہا: میں نے کہا: کیوں نہیں! (سناتھا۔) اس نے کہا: میرے بچے ہوئے ہیں۔کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے نہیں سنا تھا: "وہ (دجال) مدینہ میں داخل ہوگا اور نہ مکہ میں"؟میں نے کہا: کیوں نہیں!اس نے کہا: میں مدینہ کے اندر پیدا ہوا۔اور اب مکہ کی طرف جارہا ہوں۔انھوں نے کہا: پھر اپنی بات کے آخر میں اس نے مجھ سے کہا: دیکھیں!اللہ کی قسم!میں اس (دجال) کی جائے پیدائش، اس کے رہنے کی جگہ اور وہ کہاں ہے سب جانتا ہوں۔ (اس طرح) اس نے (اپنی حیثیت کے بارے میں) مجھے الجھا دیا۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ جاتے ابن صیاد کا ساتھی بنا تو اس نے مجھے کہا، ہاں مجھے لوگوں سے تکلیف پہنچی ہے، وہ خیال کرتے ہیں، میں دجال ہوں، کیا تونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا۔" کہ اس کی اولاد نہیں ہو گی۔"میں نے کہا، کیوں نہیں(میں نے سنا ہے)اس نے کہا تو میری تو اولاد ہے، کیا تونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا۔"وہ مدینہ میں داخل ہو گا نہ مکہ میں۔"میں نے کہا، ضرور سنا ہے، اس نے کہا میں مدینہ میں پیدا ہوا ہوں، اور اب میں مکہ جانا چاہتا ہوں، پھر اس نے اپنی باتوں کے آخر میں مجھے کہا،ہاں، اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں، اس کا مولد (جائے پیدائش) کہاں ہے اور اب وہ کہاں ہے، اس طرح اس نے مجھے شک و شبہ میں ڈال دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا يحيى بن حبيب ، ومحمد بن عبد الاعلى ، قالا: حدثنا معتمر ، قال: سمعت ابي يحدث، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: قال لي ابن صائد " واخذتني منه ذمامة هذا عذرت الناس ما لي، ولكم يا اصحاب محمد، الم يقل نبي الله صلى الله عليه وسلم: إنه يهودي، وقد اسلمت، قال: ولا يولد له، وقد ولد لي، وقال: إن الله قد حرم عليه مكة، وقد حججت، قال: فما زال حتى كاد ان ياخذ في قوله، قال: فقال له: اما والله إني لاعلم الآن حيث هو واعرف اباه وامه، قال: وقيل له: ايسرك انك ذاك الرجل؟، قال: فقال: لو عرض علي ما كرهت ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ صَائِدٍ " وَأَخَذَتْنِي مِنْهُ ذَمَامَةٌ هَذَا عَذَرْتُ النَّاسَ مَا لِي، وَلَكُمْ يَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ، أَلَمْ يَقُلْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ يَهُودِيٌّ، وَقَدْ أَسْلَمْتُ، قَالَ: وَلَا يُولَدُ لَهُ، وَقَدْ وُلِدَ لِي، وَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَيْهِ مَكَّةَ، وَقَدْ حَجَجْتُ، قَالَ: فَمَا زَالَ حَتَّى كَادَ أَنْ يَأْخُذَ فِيَّ قَوْلُهُ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ الْآنَ حَيْثُ هُوَ وَأَعْرِفُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ، قَالَ: وَقِيلَ لَهُ: أَيَسُرُّكَ أَنَّكَ ذَاكَ الرَّجُلُ؟، قَالَ: فَقَالَ: لَوْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا كَرِهْتُ ". معتمر کے والد (سلیمان) ابونضرہ سے اور وہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہیں، کہا: مجھ سے ابن صائد نے ایک بات کہی تو مجھے اس کے سامنے شرمندگی محسوس ہوئی۔ (اس نے کہا:) اس بات پر میں اور لوگوں کو معذور سمجھتا ہوں، مکر اے اصحاب محمد! آپ لوگوں کا میرے ساتھ کیامعاملہ ہے؟"کیا اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا: "دجال یہودی ہوگا۔"اور میں مسلمان ہوچکا ہوں۔کہا: "وہ لاولد ہوگا۔" جبکہ میری اولاد ہوئی ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "اللہ نے مکہ (میں داخلہ) اس پر حرام کردیا ہے۔"اور میں حج کرچکا ہوں۔ (حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے) کہا: وہ (ابن صائد) مسلسل ایسی باتیں کرتا رہا جن سے امکان تھا کہ اس کی بات میرے دل میں بیٹھ جاتی، کہا: پھر وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! اس وقت میں یہ بات جانتا ہوں کہ وہ کہاں ہے میں اس کے ماں باپ کو بھی جانتا ہوں۔کہااس سے پوچھا گیا کہ کیا تمھیں یہ بات ا چھی لگےگی کہ تمھی وہ (دجال) آدمی ہو؟اس نے کہا، اگر مجھ کو اس کی پیش کش کی جائے تو میں اسے ناپسند نہیں کروں گا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ابن صیاد نے مجھے ایک بات کہی اس سے مجھے شرم و حیاء آگئی اس مسئلہ میں میں لوگوں کو معذور سمجھتا ہوں لیکن اے محمد کے ساتھیو! تم میرے بارے میں ایسی باتیں کیوں کرتے ہو۔ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہا ہے۔"وہ یہودی ہے۔"اور میں تو اسلام کا اظہار کر چکا ہوں، آپ نے فرمایا:"اور اس کی اولاد نہیں ہوگی۔"اور میری اولاد ہے اور آپ نے فرمایا:" اللہ نے اس پر مکہ کا داخلہ حرام قراردیا ہے۔"اور میں حج کر چکا ہوں، وہ اس قسم کی باتیں کرتا رہا حتی کہ قریب تھا کہ مجھ پر اس کی باتیں اثر انداز ہو جائیں (میں اس سے متاثر ہو جاؤں) چنانچہ اس نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا،اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں، اب وہ کہاں ہے اور میں اس کے باپ اور اس کی ماں کو بھی جانتا ہوں اور اسے پوچھا گیا، کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تم ہی وہ آدمی (دجال)ہو؟ تواس نے کہا، اگر مجھے اس کی پیش کش کی جائے۔میں ناپسند نہیں کروں گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا سالم بن نوح ، اخبرني الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: " خرجنا حجاجا او عمارا، ومعنا ابن صائد، قال: فنزلنا منزلا، فتفرق الناس وبقيت انا وهو، فاستوحشت منه وحشة شديدة مما يقال عليه، قال: وجاء بمتاعه فوضعه مع متاعي، فقلت: إن الحر شديد، فلو وضعته تحت تلك الشجرة، قال: ففعل، قال: فرفعت لنا غنم فانطلق فجاء بعس، فقال: اشرب ابا سعيد، فقلت: إن الحر شديد واللبن حار، ما بي إلا اني اكره ان اشرب عن يده، او قال: آخذ عن يده، فقال ابا سعيد: لقد هممت ان آخذ حبلا، فاعلقه بشجرة، ثم اختنق مما يقول لي الناس: يا ابا سعيد من خفي عليه حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما خفي عليكم معشر الانصار، الست من اعلم الناس بحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو كافر، وانا مسلم، اوليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو عقيم لا يولد له، وقد تركت ولدي بالمدينة، اوليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يدخل المدينة ولا مكة، وقد اقبلت من المدينة وانا اريد مكة، قال ابو سعيد الخدري: حتى كدت ان اعذره، ثم قال: اما والله إني لاعرفه واعرف مولده واين هو الآن، قال: قلت له: تبا لك سائر اليوم ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، أَخْبَرَنِي الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: " خَرَجْنَا حُجَّاجًا أَوْ عُمَّارًا، وَمَعَنَا ابْنُ صَائِدٍ، قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَبَقِيتُ أَنَا وَهُوَ، فَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ وَحْشَةً شَدِيدَةً مِمَّا يُقَالُ عَلَيْهِ، قَالَ: وَجَاءَ بِمَتَاعِهِ فَوَضَعَهُ مَعَ مَتَاعِي، فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ، فَلَوْ وَضَعْتَهُ تَحْتَ تِلْكَ الشَّجَرَةِ، قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَرُفِعَتْ لَنَا غَنَمٌ فَانْطَلَقَ فَجَاءَ بِعُسٍّ، فَقَالَ: اشْرَبْ أَبَا سَعِيدٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ الْحَرَّ شَدِيدٌ وَاللَّبَنُ حَارٌّ، مَا بِي إِلَّا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَشْرَبَ عَنْ يَدِهِ، أَوَ قَالَ: آخُذَ عَنْ يَدِهِ، فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا، فَأُعَلِّقَهُ بِشَجَرَةٍ، ثُمَّ أَخْتَنِقَ مِمَّا يَقُولُ لِي النَّاسُ: يَا أَبَا سَعِيدٍ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا خَفِيَ عَلَيْكُمْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَسْتَ مِنْ أَعْلَمِ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ كَافِرٌ، وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ، وَقَدْ تَرَكْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ، أَوَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَدْخُلُ الْمَدِينَةَ وَلَا مَكَّةَ، وَقَدْ أَقْبَلْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ وَأَنَا أُرِيدُ مَكَّةَ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: حَتَّى كِدْتُ أَنْ أَعْذِرَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ مَوْلِدَهُ وَأَيْنَ هُوَ الْآنَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ ". جریری نے ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ ہم حج یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے۔ مجھے اس وجہ سے اس سے سخت وحشت ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے) ابن صائد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی) میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں بکریاں دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ابوسعید! دودھ پی۔ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور دودھ نہ پینے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ مجھے اس کے ہاتھ سے پینا برا معلوم ہوا۔ ابن صائد نے کہا کہ اے ابوسعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابوسعید! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں جانتے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہو گا اور میں تو مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال لاولد ہو گا اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مدینہ میں اور مکہ میں نہ جائے گا اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں؟ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (اس کی ایسی باتوں کی وجہ سے) قریب تھا کہ میں اس کا طرفدار بن جاؤں (اور لوگوں کا اس کے بارے میں کہنا غلط سمجھوں) کہ پھر کہنے لگا البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کہاں ہے۔ کہا: میں نے اس سے کہا: باقی سارا دن تیرے لئے تباہی اور ہلاکت ہو! (تیرا اس سے اتنا قرب کیسے ہوا؟) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ہم حج یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے۔ مجھے اس وجہ سے اس سے سخت وحشت ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے) ابن صائد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی) میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں بکریاں دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ابوسعید! دودھ پی۔ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور دودھ نہ پینے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ مجھے اس کے ہاتھ سے پینا برا معلوم ہوا۔ ابن صائد نے کہا کہ اے ابوسعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابوسعید! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو نہیں جانتے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہو گا اور میں تو مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال لاولد ہو گا اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مدینہ میں اور مکہ میں نہ جائے گا اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں؟ سیدنا ابوسعید ؓ نے کہا کہ (اس کی ایسی باتوں کی وجہ سے) قریب تھا کہ میں اس کا طرفدار بن جاؤں (اور لوگوں کا اس کے بارے میں کہنا غلط سمجھوں) کہ پھر کہنے لگا البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کس جگہ ہےتو میں نے اس کو کہا،تیرے لیے آئندہ کے لیے بھی تباہی ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابومسلمہ نے ابو نضر ہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صائد سے فرمایا: "جنت کی مٹی کیسی ہے؟"اس نے کہا: اے ابو القاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم )!باریک سفید، کستوری (جیسی) ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو نے سچ کہا۔" ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد سے پوچھا،"جنت کی مٹی کیسی ہے؟"اس نے کہا،باریک سفید،کستوری اے ابو القاسم!آپ نے فرمایا:"تو نے سچ کہا۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
جریری نے ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ابن صیاد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی مٹی کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "باریک سفید، خالص کستوری (کی طرح) ہے۔" حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صیاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی مٹی کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:" خالص سفید، خالص کستوری۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
محمد بن منکدرسے روایت ہے، کہا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا، وہ اللہ کی قسم کھاکر کہہ رہے تھے کہ ابن صائد دجال ہے۔میں نے کہا: آپ (اس بات پر) اللہ کی قسم کھا رہے ہیں؟انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات پر قسم کھاتے ہوئے دیکھا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار نہیں فرمایا تھا۔ محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ اللہ کی قسم اٹھا رہے ہیں کہ ابن صیاد دجال ہے تو میں نے کہا، کیا آپ اللہ کی قسم اٹھاتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا، میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس پر قسم اٹھاتے نہیں سنا،لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اعتراض نہیں کیا، یا آپ نے اس کا انکار نہ کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني حرملة بن يحيى بن عبد الله بن حرملة بن عمران التجيبي ، اخبرني ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله اخبره، ان عبد الله بن عمر اخبره , ان عمر بن الخطاب انطلق مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رهط قبل ابن صياد، حتى وجده يلعب مع الصبيان عند اطم بني مغالة، وقد قارب ابن صياد يومئذ الحلم، فلم يشعر حتى ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره بيده، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لابن صياد: " اتشهد اني رسول الله؟ "، فنظر إليه ابن صياد فقال: اشهد انك رسول الاميين، فقال ابن صياد لرسول الله صلى الله عليه وسلم: اتشهد اني رسول الله، فرفضه رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: " آمنت بالله وبرسله "، ثم قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ماذا ترى؟ "، قال ابن صياد: ياتيني صادق وكاذب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خلط عليك الامر "، ثم قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني قد خبات لك خبيئا "، فقال ابن صياد: هو الدخ، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اخسا فلن تعدو قدرك "، فقال عمر بن الخطاب: ذرني يا رسول الله اضرب عنقه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن يكنه فلن تسلط عليه، وإن لم يكنه فلا خير لك في قتله "،حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ، حَتَّى وَجَدَهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِابْنِ صَيَّادٍ: " أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ "، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَرَفَضَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: " آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ "، ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَاذَا تَرَى؟ "، قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ "، ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا "، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ "، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ذَرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ "، یونس نے ابن شہاب سے ر وایت کی کہ سالم بن عبداللہ نے انھیں بتایا، انھیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند لوگوں میں ابن صیاد کے پاس گئے حتیٰ کہ اسے بنی مغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امییّن کے رسول ہو (امی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے تعلیم کو)۔ پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا؟ (اور اس سے مسلمان ہونے کی درخواست نہ کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مسلمان ہونے سے مایوس ہو گئے اور ایک روایت میں صاد مہملہ سے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لات سے مارا) اور فرمایا کہ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ وہ بولا کہ میرے پاس کبھی سچا آتا ہے اور کبھی جھوٹا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا کام گڑبڑ ہو گیا (یعنی مخلوط حق و باطل دونوں سے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات دل میں چھپائی ہے۔ ابن صیاد نے کہا کہ وہ دخ (دھواں) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذلیل ہو، تو اپنی قدر سے کہاں بڑھ سکتا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے چھوڑئیے میں اس کی گردن مارتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی (یعنی دجال) ہے تو تو اس کو مار نہ سکے گا اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ حضرت عمر بن خطاب کچھ لوگوں کے ساتھ،آپ کی معیت میں،ابن صیاد کی طرف گئے،حتیٰ کہ اسے بنی مغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم امییّن کے رسول ہو (امی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے تعلیم کو)۔ پھر ابن صیاد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا؟ (اور اس سے مسلمان ہونے کی درخواست نہ کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مسلمان ہونے سے مایوس ہو گئے اور ایک روایت میں صاد مہملہ سے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لات سے مارا) اور فرمایا کہ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ وہ بولا کہ میرے پاس کبھی سچا آتا ہے اور کبھی جھوٹا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا کام گڑبڑ ہو گیا (یعنی مخلوط حق و باطل دونوں سے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات دل میں چھپائی ہے۔ ابن صیاد نے کہا کہ وہ دخ (دھواں) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذلیل ہو، تو اپنی قدر سے کہاں بڑھ سکتا ہے؟ سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے چھوڑئیے میں اس کی گردن مارتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی (یعنی دجال) ہے تو تو اس کو مار نہ سکے گا اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وقال سالم بن عبد الله: سمعت عبد الله بن عمر، يقول: انطلق بعد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بن كعب الانصاري إلى النخل التي فيها ابن صياد، حتى إذا دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم النخل طفق يتقي بجذوع النخل، وهو يختل ان يسمع من ابن صياد شيئا قبل ان يراه ابن صياد، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع على فراش في قطيفة له فيها زمزمة، فرات ام ابن صياد رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل، فقالت لابن صياد: يا صاف وهو اسم ابن صياد هذا محمد، فثار ابن صياد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو تركته بين "،وَقَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، حَتَّى إِذَا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلَ طَفِقَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشٍ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ، فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: يَا صَافِ وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ "، سالم بن عبداللہ نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: اس (سابقہ واقعے) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابی ابن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کھجوروں کے اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا، باغ میں داخل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کے تنوں کی آڑ میں ہونے لگے تاکہ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھے آ پ اس کی کوئی بات سن لیں، وہ بستر پر ایک نرم چادر میں (اسے اوڑھ کر لیٹا) ہوا تھا، اس کے اندر سے اس کی گنگاہٹ کی آوازآرہی تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں کی آڑلے رہے تھے تو ابن صیاد کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور وہ ابن صیاد سے کہنے لگی صاف!۔۔۔اور یہ ابن صیاد کا نام تھا۔یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (آئے) ہیں۔ابن صیاد اچھل کرکھڑا ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر وہ اس کو (اُسی حالت میں) چھوڑ دیتی تو وہ (اپنا معاملہ) واضح کردیتا۔" حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابی بن کعب انصاری اس نخلستان میں گئےجہاں ابن صیاد تھا حتی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نخلستان میں داخل ہو گئے،توکھجوروں کے تنوں کی آڑ (اوٹ) لینے لگے اور آپ کی کوشش یا چارہ جوئی کر رہے تھے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھے،آپ ابن صیاد کی کوئی بات سن لیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا وہ بستر پر ایک چادر میں لیٹا ہوا ہے وہ گنگنا رہا ہے سوا بن صیاد کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ کھجوروں کی اوٹ لے رہے ہیں تو اس نے ابن صیاد کو کہا،اے صاف! (یہ ابن صیاد کا نام ہے) یہ محمد ہیں تو ابن صیاد اچھل پڑا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اگر یہ اسے رہنے دیتی(اطلاع نہ دیتی)(اطلاع نہ دیتی) (وہ اپنی اصلیت بیان کردیتا "یعنی اس کی باتوں سے اس کی اصلیت نمایاں ہو جاتی۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قال سالم: قال عبد الله بن عمر: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس، فاثنى على الله بما هو اهله ثم ذكر الدجال، فقال: " إني لانذركموه ما من نبي إلا وقد انذره قومه، لقد انذره نوح قومه، ولكن اقول لكم فيه قولا لم يقله نبي لقومه تعلموا انه اعور، وان الله تبارك وتعالى ليس باعور "، قال ابن شهاب : واخبرني عمر بن ثابت الانصاري ، انه اخبره بعض اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " يوم حذر الناس الدجال إنه مكتوب بين عينيه كافر، يقرؤه من كره عمله او يقرؤه كل مؤمن "، وقال: " تعلموا انه لن يرى احد منكم ربه عز وجل، حتى يموت "،قَالَ سَالِمٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: " إِنِّي لَأُنْذِرُكُمُوهُ مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ، لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنْ أَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعَلَّمُوا أَنَّهُ أَعْوَرُ، وَأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَأَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَوْمَ حَذَّرَ النَّاسَ الدَّجَّالَ إِنَّهُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ كَافِرٌ، يَقْرَؤُهُ مَنْ كَرِهَ عَمَلَهُ أَوْ يَقْرَؤُهُ كُلُّ مُؤْمِنٍ "، وَقَالَ: " تَعَلَّمُوا أَنَّهُ لَنْ يَرَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، حَتَّى يَمُوتَ "، سالم نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریف کی جس کا وہ اہل ہے، پھر آپ نے دجال کاذکر کیا اور فرمایا: "میں تمھیں اس سےخبردار کررہا ہوں، اور ہر نبی نے ا پنی قوم کو اس سے خبر دار کیا ہے، بے شک حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے خبر دار کیا، لیکن میں تمھیں اس کے متعلق ایک ایسی بات بتاتاہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی، اچھی طرح جان لو کہ وہ کانا ہےاور اللہ تبارک وتعالیٰ کانا نہیں ہے۔" ابن شہاب نے کہا: مجھے عمر بن ثابت انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے (روایت کرتے ہوئے) خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس روز لوگوں کو دجال کے بارے میں خبر دار کیا توفرمایا: "اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہے: "کافر"ہر وہ آدمی جو اس کے عمل کو ناپسند کرے گا اسے پڑھ لے گا یا (فرمایا:) ہر مومن اسے پڑھ لے گا۔"اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ تم میں سے کوئی بھی مرنے تک اپنے رب وعزوجل کو ہرگز نہیں دیکھ سکے گا۔" (جبکہ دجال کو سب لوگ دیکھ رہے ہوں گے۔) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطاب کے لیے کھڑے ہوئے اللہ کے شایان شان اس کی تعریف بیان کی، پھر دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:"میں تمھیں اس سے ڈراتا ہوں اور ہر نبی نے اس سے اپنی قوم کو خبردار کیا ہے نوح ؑ نے بھی قوم کو اس سے آگاہ کیا لیکن میں تمھیں اس کے بارے میں ایسی بات بتاتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی جان لو! وہ کانا ہے اور اللہ تعالیٰ یقیناً کانا نہیں ہے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
صالح نے ابن شہاب سےروایت کی، انھوں نے کہا: مجھے سالم بن عبداللہ نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا پنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی جماعت کے ساتھ جس میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، تشریف لے گئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو دیکھا۔وہ اس وقت بلوغت کی عمر کوپہنچنے کے قریب ایک لڑکا تھا، وہ بنو معاویہ کے مکانوں کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیل رہاتھا۔اور عمر بن ثابت کی حدیث کے اختتام تک یونس کی حدیث کے مانند بیان کیا۔اور یعقوب سے روایت کردہ حدیث میں کہا: ابی (ابن کعب رضی اللہ عنہ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: "اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو واضح کردیتا۔"کے بارے میں کہا، اگر اس کی ماں اسے چھوڑ دیتی تو ا پنا معاملہ وہ واضح کردیتا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ایک گروہ کے ساتھ چلے، ان میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھےحتی کہ ابن صیاد کو پایا وہ ایک قریب البلوغت لڑکا ہے اور بچوں کے ساتھ بنو معاویہ کے قلعہ کے پاس کھیل رہا ہے اور آگے مذکورہ بالا حدیث عمر بن ثابت کی حدیث کے خاتمہ تک بیان کی اور اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابی نے "لوتَرَكتهُ بين" کی وضاحت کی، اگر اس کی ماں اس کو چھوڑدیتی (اس کو آگاہ نہ کرتی) وہ اپنا معاملہ واضح کر دیتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا عبد بن حميد ، وسلمة بن شبيب جميعا، عن عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بابن صياد في نفر من اصحابه، فيهم عمر بن الخطاب وهو يلعب مع الغلمان عند اطم بني مغالة وهو غلام بمعنى حديث يونس وصالح، غير ان عبد بن حميد لم يذكر حديث ابن عمر، في انطلاق النبي صلى الله عليه وسلم مع ابي بن كعب إلى النخل.وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلَامٌ بِمَعْنَى حَدِيثِ يُونُسَ وَصَالِحٍ، غَيْرَ أَنَّ عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ لَمْ يَذْكُرْ حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ، فِي انْطِلَاقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ. عبد بن حمید اور سلمہ بن ثویب دونوں نے ہمیں عبدالرزاق سے حدیث بیان کی، (انھوں نے کہا:) ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی ا، انھوں نے سالم سے اور انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے چند لوگوں کے ساتھ، جن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، ابن صیاد کے قریب سے گزرے، وہ اس وقت لڑکاتھا اور بنومقالہ کے مکانوں کے قریب لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ (آگے) جس طرح یونس اور صالح کی حدیث ہے مگر عبد حمید نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھجوروں کے باغ میں جانے کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ایک گروہ کے ساتھ بن صیاد کے پاس سے گزرے، ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے وہ بنو مغالہ کے قلعہ کے پاس بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور وہ نوجوان تھا آگے مذکورہ بالا روایت کے معنی روایت ہے، لیکن شعبہ کی روایت میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نخلستان کی طرف جانے کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا عبد بن حميد ، حدثنا روح بن عبادة ، حدثنا هشام ، عن ايوب ، عن نافع ، قال: لقي ابن عمر ابن صائد في بعض طرق المدينة، فقال له قولا اغضبه، فانتفخ حتى ملا السكة، فدخل ابن عمر على حفصة وقد بلغها، فقالت له: رحمك الله ما اردت من ابن صائد، اما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إنما يخرج من غضبة يغضبها ".حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: لَقِيَ ابْنُ عُمَرَ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ قَوْلًا أَغْضَبَهُ، فَانْتَفَخَ حَتَّى مَلَأَ السِّكَّةَ، فَدَخَلَ ابْنُ عُمَرَ عَلَى حَفْصَةَ وَقَدْ بَلَغَهَا، فَقَالَتْ لَهُ: رَحِمَكَ اللَّهُ مَا أَرَدْتَ مِنْ ابْنِ صَائِدٍ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّمَا يَخْرُجُ مِنْ غَضْبَةٍ يَغْضَبُهَا ". ایوب نے نافع سے روایت کی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک راستے میں ابن صیاد سے ملے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کوئی ایسی بات کہی جس نے اسے غصہ دلادیا تو وہ اتنا پھول گیا کہ اس نے (پوری) گلی کوبھر دیا، پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ان کو یہ خبر مل چکی تھی، انھوں نے ان سے فرمایا، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے!تم ابن صیاد سے کیاچاہتے تھے؟کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "دجال غصہ آجانے کی وجہ سے ہی (اپنی حقیقی صورت میں) برآمد ہوگا۔" حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدینہ کے کسی راستہ میں ابن صیاد سے ملاقات ہوگئی تو انھوں نے اسے ایسی بات کہی جس سے وہ ناراض ہو گیا جس سے وہ اس قدر پھول گیا۔ حتی کہ اس نے گلی کو بھردیا، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گئے اور انہیں واقعہ پہنچ چکا تھا تو انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا،اللہ تم پر رحم فرمائے تونے ابن صیاد کو کیوں چھیڑا َ کیا تمھیں پتہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس کا ظہور کسی غصہ کے آنے پر ہو گا۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا حسين يعني ابن حسن بن يسار ، حدثنا ابن عون ، عن نافع ، قال: كان نافع، يقول: ابن صياد قال: قال ابن عمر : لقيته مرتين، قال: فلقيته، فقلت: لبعضهم هل تحدثون انه هو؟، قال: لا والله، قال: قلت: كذبتني والله لقد اخبرني بعضكم انه لن يموت حتى يكون اكثركم مالا وولدا، فكذلك هو زعموا اليوم، قال: فتحدثنا ثم فارقته، قال: فلقيته لقية اخرى، وقد نفرت عينه، قال: فقلت: متى فعلت عينك ما ارى؟، قال: لا ادري، قال: قلت: لا تدري وهي في راسك، قال: إن شاء الله خلقها في عصاك هذه، قال: فنخر كاشد نخير حمار، سمعت، قال: فزعم بعض اصحابي اني ضربته بعصا كانت معي حتى تكسرت، واما انا فوالله ما شعرت، قال: وجاء حتى دخل على ام المؤمنين ، فحدثها فقالت: ما تريد إليه الم تعلم انه قد، قال: " إن اول ما يبعثه على الناس غضب يغضبه ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي ابْنَ حَسَنِ بْنِ يَسَارٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: كَانَ نَافِعٌ، يَقُولُ: ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَقِيتُهُ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ، فَقُلْتُ: لِبَعْضِهِمْ هَلْ تَحَدَّثُونَ أَنَّهُ هُوَ؟، قَالَ: لَا وَاللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ: كَذَبْتَنِي وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنِي بَعْضُكُمْ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ حَتَّى يَكُونَ أَكْثَرَكُمْ مَالًا وَوَلَدًا، فَكَذَلِكَ هُوَ زَعَمُوا الْيَوْمَ، قَالَ: فَتَحَدَّثْنَا ثُمَّ فَارَقْتُهُ، قَالَ: فَلَقِيتُهُ لَقْيَةً أُخْرَى، وَقَدْ نَفَرَتْ عَيْنُهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَتَى فَعَلَتْ عَيْنُكَ مَا أَرَى؟، قَالَ: لَا أَدْرِي، قَالَ: قُلْتُ: لَا تَدْرِي وَهِيَ فِي رَأْسِكَ، قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ خَلَقَهَا فِي عَصَاكَ هَذِهِ، قَالَ: فَنَخَرَ كَأَشَدِّ نَخِيرِ حِمَارٍ، سَمِعْتُ، قَالَ: فَزَعَمَ بَعْضُ أَصْحَابِي أَنِّي ضَرَبْتُهُ بِعَصًا كَانَتْ مَعِيَ حَتَّى تَكَسَّرَتْ، وَأَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ، قَالَ: وَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، فَحَدَّثَهَا فَقَالَتْ: مَا تُرِيدُ إِلَيْهِ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّهُ قَدْ، قَالَ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يَبْعَثُهُ عَلَى النَّاسِ غَضَبٌ يَغْضَبُهُ ". ابن عون نے ہمیں نافع سے حدیث بیان کی، کہا: نافع کہاکرتے تھے کہ ابن صیاد۔ (اسکے بارے میں) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:۔میں اس سے دوبارہ ملاہوں۔ایک بار ملا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ تم کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! تم نے مجھے جھوٹا کیا۔ تم میں سے بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ نہیں مرے گا، یہاں تک کہ تم سب میں زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہو گا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں۔ پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔ انھوں نے کہا: میرےساتھیوں میں سے ایک سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو ڈنڈا تھا میں نے اسے اس کے ساتھ اتنا مارا کہ وہ ڈنڈا ٹوٹ گیا لیکن میں، واللہ!مجھے کچھ پتہ نہ چلا۔ نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ام المؤمنین (حفصہ رضی اللہ عنہا) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اول چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:میں ابن صیادکودودفعہ ملاہوں۔میں اس کوملاتو میں نے کسی کو کہا،کیاتم(اس کے ساتھی) یہ کہتے ہو،یہ وہی(دجال)ہے؟اس نے کہا،نہیں،میں نےکہا،تم مجھے جھوٹ بتاتے ہو،اللہ کی قسم!مجھے تم میں سے ہی بعض نے بتایا ہے کہ وہ ہرگز مرےگا نہیں،حتیٰ کہ تم سب سے زیادہ مال اور اولاد والا ہوگا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں۔ پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔ انھوں نے کہا:میرےساتھیوں میں سے ایک سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو ڈنڈا تھا میں نے اسے اس کے ساتھ اتنا مارا کہ وہ ڈنڈا ٹوٹ گیا لیکن میں،واللہ!مجھے کچھ پتہ نہ چلا۔نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ام المؤمنین (حفصہ ؓ) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اول چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|