كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ فتنے اور علامات قیامت The Book of Tribulations and Portents of the Last Hour 7. باب فِي الْفِتْنَةِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ: باب: سمندر کی موجوں کی طرح آنے والے فتنوں کے بیان میں۔ Chapter: The Tribulation That Will Come like Waves Of The Ocean حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، ومحمد بن العلاء ابو كريب جميعا، عن ابي معاوية ، قال ابن العلاء حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن حذيفة ، قال: كنا عند عمر، فقال: ايكم يحفظ حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة كما قال؟، قال: فقلت: انا، قال: إنك لجريء، وكيف قال؟، قال: قلت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " فتنة الرجل في اهله وماله ونفسه وولده وجاره، يكفرها الصيام والصلاة والصدقة، والامر بالمعروف والنهي عن المنكر "، فقال عمر: ليس هذا اريد إنما اريد التي تموج كموج البحر، قال: فقلت: ما لك ولها يا امير المؤمنين، إن بينك وبينها بابا مغلقا، قال: افيكسر الباب ام يفتح؟، قال: قلت: لا بل يكسر، قال: ذلك احرى ان لا يغلق ابدا، قال: فقلنا: لحذيفة هل كان عمر يعلم من الباب؟، قال: نعم، كما يعلم ان دون غد الليلة إني حدثته حديثا ليس بالاغاليط، قال: فهبنا ان نسال حذيفة من الباب، فقلنا لمسروق: سله فساله، فقال عمر "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كريب جميعا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ كَمَا قَالَ؟، قَالَ: فَقُلْتُ: أَنَا، قَالَ: إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، وَكَيْفَ قَالَ؟، قَالَ: قُلْتُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَنَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ، يُكَفِّرُهَا الصِّيَامُ وَالصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ "، فَقَالَ عُمَرُ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ إِنَّمَا أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَا لَكَ وَلَهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: أَفَيُكْسَرُ الْبَابُ أَمْ يُفْتَحُ؟، قَالَ: قُلْتُ: لَا بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ: ذَلِكَ أَحْرَى أَنْ لَا يُغْلَقَ أَبَدًا، قَالَ: فَقُلْنَا: لِحُذَيْفَةَ هَلْ كَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ مَنِ الْبَابُ؟، قَالَ: نَعَمْ، كَمَا يَعْلَمُ أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ، قَالَ: فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَ حُذَيْفَةَ مَنِ الْبَابُ، فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ: سَلْهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ عُمَرُ "، ابو معاویہ نے کہا: ہمیں اعمش نے (ابو وائل) شقیق سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے کہا: فتنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جس طرح آپ نے خود فرمایا تھا تم میں سے کسی کو یاد ہے؟ (حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی: مجھے۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: تم بہت جرات مند ہو۔ (یہ بتاؤ کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ارشاد فرمایاتھا؟میں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا آپ فرما رہے تھے۔انسان اپنے گھروالوں اپنےمال اپنی جان اور اپنے ہمسائے کے بارے میں جس فتنے میں مبتلا ہوتاہے تو روزہ نماز، صدقہ، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا اس کا کفارہ بن جاتے ہیں۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری مراد اس سے نہیں میری مراد تواس (فتنے) سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امڈکرآتا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین!آپ کو اس فتنے سے کیا (خطرہ) ہے؟آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بنددروازہ ہے۔انھوں نے کہا: وہ دروازہ توڑاجائے گا یا کھولا جا ئے گا؟کہا: میں نے جواب دیا نہیں بلکہ توڑاجائےگا۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ (دروازہ دوبارہ) کبھی بند نہیں کیا جا سکے گا۔ (شقیق نے) کہا: ہم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ دروازہ کون ہے؟انھوں نے کہا: ہاں اسی طرح جیسے وہ یہ بات جانتے تھے کہ صبح کے بعد رات ہے میں نے ان کو ایک حدیث بیان کی تھی وہ کوئی اٹکل بچو بات نہ تھی۔کہا: پھر ہم اس بات سے ڈرگئے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھیں وہ دروازہ کون تھا؟ ہم نے مسروق سے کہا: آپ ان (حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ) سے پوچھیں انھوں نے پوچھا تو (حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: (وہ دروازہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ (تھے) حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے کہا: فتنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جس طرح آپ نے خود فرمایا تھا تم میں سے کسی کو یاد ہے؟(حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: میں نے عرض کی: مجھے۔(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)کہا: تم بہت جرات مند ہو۔ (یہ بتاؤ کہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ارشاد فرمایاتھا؟میں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا آپ فر رہے تھے۔انسان اپنے گھروالوں اپنےمال اپنی جان اور اپنے ہمسائے کے بارے میں جس فتنے میں مبتلا ہوتاہے تو روزہ نماز،صدقہ،نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا اس کا کفارہ بن جاتے ہیں۔تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میری مراد اس سے نہیں میری مراد تواس(فتنے)سے ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح امڈکرآتا ہے۔حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین!آپ کو اس فتنے سے کیا(خطرہ)ہے؟آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بنددروازہ ہے۔انھوں نے کہا:وہ دروازہ توڑاجائے گا یا کھولا جا ئے گا؟کہا: میں نے جواب دیا نہیں بلکہ توڑاجائےگا۔(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: پھر اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ (دروازہ دوبارہ) کبھی بند نہیں کیا جا سکے گا۔(شقیق رحمۃ اللہ علیہ نے)کہا: ہم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے تھے کہ دروازہ کون ہے؟انھوں نے کہا: ہاں اسی طرح جیسے وہ یہ بات جانتے تھے کہ صبح کے بعد رات ہے میں نے ان کو ایک حدیث بیان کی تھی وہ کوئی اٹکل بچو بات نہ تھی۔کہا: پھر ہم اس بات سے ڈرگئے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھیں وہ دروازہ کون تھا؟ ہم نے مسروق سے کہا: آپ ان (حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے پوچھیں انھوں نے پوچھا تو(حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: (وہ دروازہ)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (تھے)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وکیع جریر عیسیٰ بن یونس اور یحییٰ بن عیسیٰ سب نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ ابو معاویہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور شقیق سے اعمش اور ان سے عیسیٰ کی حدیث میں یہ (جملہ) ہے کہا: میں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا۔ یہی روایت امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے جامع بن ابی راشد سے اور اعمش نے ابو وائل (شقیق) سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کون ہے جو ہمیں فتنے کے بارے میں حدیث بیان کرے گا؟اور (پھر) ا ن سب کی حدیث کی طرح بیان کیا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کون ہمیں فتنہ کے بارے میں حدیث سنائے گا؟ آگے مذکورہ بال حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن المثنى ، ومحمد بن حاتم ، قالا: حدثنا معاذ بن معاذ ، حدثنا ابن عون ، عن محمد ، قال: قال جندب : جئت يوم الجرعة، فإذا رجل جالس، فقلت: ليهراقن اليوم هاهنا دماء؟، فقال ذاك الرجل: كلا والله، قلت: بلى والله، قال: كلا والله، قلت: بلى والله، قال: كلا والله، إنه لحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثنيه، قلت: " بئس الجليس لي انت منذ اليوم تسمعني اخالفك وقد سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا تنهاني، ثم قلت: ما هذا الغضب؟، فاقبلت عليه واساله، فإذا الرجل حذيفة .وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ جُنْدُبٌ : جِئْتُ يَوْمَ الْجَرَعَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ، فَقُلْتُ: لَيُهْرَاقَنَّ الْيَوْمَ هَاهُنَا دِمَاءٌ؟، فَقَالَ ذَاكَ الرَّجُلُ: كَلَّا وَاللَّهِ، قُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ، قَالَ: كَلَّا وَاللَّهِ، قُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ، قَالَ: كَلَّا وَاللَّهِ، إنه لحديث رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنِيهِ، قُلْتُ: " بِئْسَ الْجَلِيسُ لِي أَنْتَ مُنْذُ الْيَوْمِ تَسْمَعُنِي أُخَالِفُكَ وَقَدْ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تَنْهَانِي، ثُمَّ قُلْتُ: مَا هَذَا الْغَضَبُ؟، فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهِ وَأَسْأَلُهُ، فَإِذَا الرَّجُلُ حُذَيْفَةُ . محمد (بن سیرین) سے روایت ہے انھوں نے کہا: حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جرعہ کے دن وہاں آیا تو (وہاں) ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔میں نے کہا: آج یہاں بہت خونریزی ہو گی۔اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم!ہر گز نہیں ہو گی۔میں نے کہا: اللہ کی قسم!ضرورہو گی اس نے کہا: واللہ!ہر گز نہیں ہو گی، میں نے کہا واللہ!ضرورہوگی اس نے کہا: واللہ!ہرگز نہیں ہو گی، یہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے جو آپ نے مجھے ارشاد فرمائی تھی۔میں نے جواب میں کہا: آج تم میرے لیے آج کے بد ترین ساتھی (ثابت ہوئے) ہو۔تم مجھ سے سن رہے ہو کہ میں تمھاری مخالفت کرر ہا ہوں اور تم نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہےا س کی بنا پر مجھے روکتے نہیں؟پھر میں نے کہا: یہ غصہ کیسا؟چنانچہ میں (ٹھیک طرح سے) ان کی طرف متوجہ ہوا اور ان کے بارے میں پوچھا تو وہ آدمی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں واقعہ جرعہ کے دن آیا تو وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا چنانچہ میں نے کہا، آج یہاں خون ریزی ہو گی تو اس آدمی نے کہا، ہر گز نہیں اللہ کی قسم! میں نے کہا، کیوں نہیں اللہ کی قسم!اس نے کہا، ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! میں نے کہا، ضرور ہو گی اللہ کی قسم!اس نے کہا، ہر گز نہیں اللہ کی قسم! کیونکہ آپ کی حدیث ہے جو آپ نے مجھے سنائی ہے، میں نے کہا، آپ آج کے میرے برے ہم نشین ہیں، آپ سن رہیں ہیں۔ میں آپ کی ایسی چیز میں مخالفت کر رہا ہوں جو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکے ہیں، اس کے باوجود آپ مجھے روکتے نہیں ہیں؟ پھر میں نے دل میں کہا اس غصہ کا کیا فائدہ؟ اس لیے میں ان سے پوچھنے کے لیے ان کی طرف بڑھا تو وہ آدمی حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|