سالم بن عبداللہ نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں: اس (سابقہ واقعے) کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابی ابن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کھجوروں کے اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا، باغ میں داخل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوروں کے تنوں کی آڑ میں ہونے لگے تاکہ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھے آ پ اس کی کوئی بات سن لیں، وہ بستر پر ایک نرم چادر میں (اسے اوڑھ کر لیٹا) ہوا تھا، اس کے اندر سے اس کی گنگاہٹ کی آوازآرہی تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں کی آڑلے رہے تھے تو ابن صیاد کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور وہ ابن صیاد سے کہنے لگی صاف!۔۔۔اور یہ ابن صیاد کا نام تھا۔یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (آئے) ہیں۔ابن صیاد اچھل کرکھڑا ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر وہ اس کو (اُسی حالت میں) چھوڑ دیتی تو وہ (اپنا معاملہ) واضح کردیتا۔"
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابی بن کعب انصاری اس نخلستان میں گئےجہاں ابن صیاد تھا حتی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نخلستان میں داخل ہو گئے،توکھجوروں کے تنوں کی آڑ (اوٹ) لینے لگے اور آپ کی کوشش یا چارہ جوئی کر رہے تھے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھے،آپ ابن صیاد کی کوئی بات سن لیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا وہ بستر پر ایک چادر میں لیٹا ہوا ہے وہ گنگنا رہا ہے سوا بن صیاد کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ کھجوروں کی اوٹ لے رہے ہیں تو اس نے ابن صیاد کو کہا،اے صاف! (یہ ابن صیاد کا نام ہے) یہ محمد ہیں تو ابن صیاد اچھل پڑا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اگر یہ اسے رہنے دیتی(اطلاع نہ دیتی)(اطلاع نہ دیتی) (وہ اپنی اصلیت بیان کردیتا "یعنی اس کی باتوں سے اس کی اصلیت نمایاں ہو جاتی۔"