كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ فتنے اور علامات قیامت The Book of Tribulations and Portents of the Last Hour 23. باب فِي خُرُوجِ الدَّجَّالِ وَمُكْثِهِ فِي الأَرْضِ وَنُزُولِ عِيسَى وَقَتْلِهِ إِيَّاهُ وَذَهَابِ أَهْلِ الْخَيْرِ وَالإِيمَانِ وَبَقَاءِ شِرَارِ النَّاسِ وَعِبَادَتِهِمُ الأَوْثَانَ وَالنَّفْخِ فِي الصُّورِ وَبَعْثِ مَنْ فِي الْقُبُورِ: باب: خروج دجال اور اس کا زمین میں ٹھہرنے اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور اسے قتل کرنے کے بیان میں۔ Chapter: The Emergence Of Ad-Dajjal And His Stay On Earth, And The Descent Of 'Eisa Who Will Kill Him. The Death Of The People Of Goodness And Faith, And The Survival Of The Worst Of People, And Their Idol-Worship. The Trumpet Blast, And The Resurrection Of Those Who Are In Their Graves حدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن النعمان بن سالم ، قال: سمعت يعقوب بن عاصم بن عروة بن مسعود الثقفي ، يقول: سمعت عبد الله بن عمرو ، وجاءه رجل، فقال: ما هذا الحديث تحدث به؟، تقول: إن الساعة تقوم إلى كذا وكذا، فقال: سبحان الله او لا إله إلا الله، او كلمة نحوهما لقد هممت ان لا احدث احدا شيئا ابدا إنما، قلت: إنكم سترون بعد قليل امرا عظيما يحرق البيت ويكون ويكون، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يخرج الدجال في امتي، فيمكث اربعين لا ادري اربعين يوما، او اربعين شهرا، او اربعين عاما، فيبعث الله عيسى ابن مريم، كانه عروة بن مسعود فيطلبه فيهلكه، ثم يمكث الناس سبع سنين ليس بين اثنين عداوة، ثم يرسل الله ريحا باردة من قبل الشام، فلا يبقى على وجه الارض احد في قلبه مثقال ذرة من خير او إيمان، إلا قبضته حتى لو ان احدكم دخل في كبد جبل لدخلته عليه حتى تقبضه "، قال: سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " فيبقى شرار الناس في خفة الطير واحلام السباع، لا يعرفون معروفا، ولا ينكرون منكرا، فيتمثل لهم الشيطان، فيقول: الا تستجيبون، فيقولون: فما تامرنا فيامرهم بعبادة الاوثان، وهم في ذلك دار رزقهم حسن عيشهم، ثم ينفخ في الصور، فلا يسمعه احد إلا اصغى ليتا ورفع ليتا، قال واول من يسمعه: رجل يلوط حوض إبله، قال: فيصعق ويصعق الناس، ثم يرسل الله، او قال ينزل الله مطرا كانه الطل او الظل نعمان الشاك، فتنبت منه اجساد الناس ثم ينفخ فيه اخرى، فإذا هم قيام ينظرون، ثم يقال: يا ايها الناس هلم إلى ربكم، وقفوهم إنهم مسئولون، قال: ثم يقال اخرجوا بعث النار، فيقال: من كم، فيقال: من كل الف تسع مائة وتسعة وتسعين، قال: فذاك يوم يجعل الولدان شيبا وذلك يوم يكشف عن ساق "،حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، وَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: مَا هَذَا الْحَدِيثُ تُحَدِّثُ بِهِ؟، تَقُولُ: إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهُمَا لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُحَدِّثَ أَحَدًا شَيْئًا أَبَدًا إِنَّمَا، قُلْتُ: إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا يُحَرَّقُ الْبَيْتُ وَيَكُونُ وَيَكُونُ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي، فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ لَا أَدْرِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا، فَيَبْعَثُ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ، ثُمَّ يَمْكُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّأْمِ، فَلَا يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ، إِلَّا قَبَضَتْهُ حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ دَخَلَ فِي كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْهُ عَلَيْهِ حَتَّى تَقْبِضَهُ "، قَالَ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ وَأَحْلَامِ السِّبَاعِ، لَا يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا، فَيَتَمَثَّلُ لَهُمُ الشَّيْطَانُ، فَيَقُولُ: أَلَا تَسْتَجِيبُونَ، فَيَقُولُونَ: فَمَا تَأْمُرُنَا فَيَأْمُرُهُمْ بِعِبَادَةِ الْأَوْثَانِ، وَهُمْ فِي ذَلِكَ دَارٌّ رِزْقُهُمْ حَسَنٌ عَيْشُهُمْ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لِيتًا وَرَفَعَ لِيتًا، قَالَ وَأَوَّلُ مَنْ يَسْمَعُهُ: رَجُلٌ يَلُوطُ حَوْضَ إِبِلِهِ، قَالَ: فَيَصْعَقُ وَيَصْعَقُ النَّاسُ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ، أَوَ قَالَ يُنْزِلُ اللَّهُ مَطَرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ أَوِ الظِّلُّ نُعْمَانُ الشَّاكُّ، فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ، وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ أَخْرِجُوا بَعْثَ النَّارِ، فَيُقَالُ: مِنْ كَمْ، فَيُقَالُ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، قَالَ: فَذَاكَ يَوْمَ يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا وَذَلِكَ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ "، معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے نعمان بن سالم سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے یعقوببن عاصم بن عروہ بن مسعود ثقفی سے سنا، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے سنا، ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: یہ کیا حدیث ہے جو آپ بیان کرتے ہیں۔کہ فلاں فلاں بات ہونے تک قیامت قائم ہو جائے گی انھوں نے سبحان اللہ!۔یا۔۔۔لاالہ الااللہ۔۔۔یا۔۔۔اس جیسا کوئی کلمہ کہا: (اورکہنے لگے) میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ میں کسی کو کبھی کوئی بات بیان نہیں کروں گا۔ میں نے یہ کہا تھا تم لوگ تھوڑے عرصے بعد بہت بڑا معاملہ دیکھو گے۔بیت اللہ کو جلا دیا جا ئےگا۔اور یہ ہوگا پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں دجال نمودار ہو گا اور چالیس مجھے یاد نہیں کہ چالیس دن (فرمائے) یا چالیس مہینے یا چالیس سال رہے گا تو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیج دیں گے۔وہ اس طرح ہیں جیسے حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ اسے ڈھونڈیں گے اور اسے ہلاک کر دیں گے پھر لوگ سات سال تک اس حالت میں رہیں گے۔کہ کوئی سے دو آدمیوں کے درمیان دشمنی تک نہ ہوگی پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہواچلائے گاتو روئے زمین پر ایک بھی ایسا آدمی نہیں رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھلائی یا ایمان ہو گا۔مگر وہ ہوا اس کی روح قبض کرے گی یہاں تک کہااگر تم میں سے کوئی شخص پہاڑ کے جگرمیں گھس جائے گا تو وہاں بھی وہ (ہوا) داخل ہو جا ئے گی۔یہاں تک کہ اس کی روح قبض کرلے گی۔"انھوں نے کہا: یہ بات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔آپ نے فرمایا: "پرندوں جیسا ہلکا پن اور درندوں جیسی عقلیں رکھنے والے بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے۔نہ اچھائی کو اچھا سمجھیں گے نہ برائی کو برا جانیں گے۔شیطان کوئی شکل اختیار کر کے ان کے پاس آئے گا اور کہے گا: "کیا تم میری بات پر عمل نہیں کروگے؟وہ کہیں گے۔تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔؟وہ انھیں بت پوجنے کا حکم دے گا وہ اسی حالت میں رہیں گے ان کا رزق اترتا ہوگا ان کی معیشت بہت اچھی ہو گی پھر صور پھونکا جائے گا۔جو بھی اسے سنے گا وہ گردن کی ایک جانب کو جھکائے گا اور دوسری جانب کو اونچا کرے گا (گردنیں ٹیڑھی ہو جائیں گی) سب سے پہلا شخص جواسے سنے گاوہ اپنے اونٹوں کے حوض کی لپائی کر رہا ہوگا۔وہ پچھاڑ کھا کر گر جائے گا۔اور دوسرے لوگ بھی گر (کر مر) جائیں گے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک بارش نازل فرمائےگا۔جو ایک پھوار کے مانند ہو گی۔یا سائے کی طرح ہو گی۔شک کرنے والے نعمان (بن سالم) ہیں اس سے انسانوں کے جسم اُگ آئیں گے۔پھر صور میں دوسری بار پھونک ماری جائے گی۔تو وہ سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے، (زندہ ہو جا ئیں گے) پھر کہا جا ئے گا لوگو! اپنے پروردگارکی طرف آؤ!اور (فرشتوں سے کہا جائے گا ان کولاکھڑا کرو ان سے سوال پوچھے جائیں گے۔حکم دیا جا ئےگا۔آگ میں بھیجے جانے والوں کو (اپنی صفوں سے) باہرنکالو پوچھا جائے گا۔کتنوں میں سے (کتنے؟) کہاجائے گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔انھوں نے کہا: تویہ وہ دن ہو گا جو بچوں کو بوڑھا کردے گا۔ اور وہی دن ہو گا جب پنڈلی سے پردہ ہٹا (کر دیدار جمال کرایا) جائے گا۔" حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا،یہ کیسی حدیث ہے،جو آپ بیان کرتے ہیں،آپ کہتے ہیں،کہ فلاں فلاں بات ہونے تک قیامت قائم ہو جائے گی انھوں نے سبحان اللہ!۔یا۔۔۔لاالہ الااللہ۔۔۔یا۔۔۔اس جیسا کوئی کلمہ کہا: (اورکہنے لگے)میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ میں کسی کو کبھی کوئی بات بیان نہیں کروں گا۔ میں نے یہ کہا تھا تم لوگ تھوڑے عرصے بعد بہت بڑا معاملہ دیکھو گے۔بیت اللہ کو جلا دیا جا ئےگا۔اور یہ ہوگا پھر کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میری امت میں دجال نمودار ہو گا اور چالیس مجھے یاد نہیں کہ چالیس دن (فرمائے) یا چالیس مہینے یا چالیس سال رہے گا تو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ کو بھیج دیں گے۔وہ اس طرح ہیں جیسے حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ اسے ڈھونڈیں گے اور اسے ہلاک کر دیں گے پھر لوگ سات سال تک اس حالت میں رہیں گے۔کہ کوئی سے دو آدمیوں کے درمیان دشمنی تک نہ ہوگی پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہواچلائے گاتو روئے زمین پر ایک بھی ایسا آدمی نہیں رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھلائی یا ایمان ہو گا۔مگر وہ ہوا اس کی روح قبض کرے گی یہاں تک کہااگر تم میں سے کوئی شخص پہاڑ کے جگرمیں گھس جائے گا تو وہاں بھی وہ (ہوا)داخل ہو جا ئے گی۔یہاں تک کہ اس کی روح قبض کرلے گی۔"انھوں نے کہا:یہ بات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی۔آپ نے فرمایا:"پرندوں جیسا ہلکا پن اور درندوں جیسی عقلیں رکھنے والے بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے۔نہ اچھائی کو اچھا سمجھیں گے نہ برائی کو برا جانیں گے۔شیطان کوئی شکل اختیار کر کے ان کے پاس آئے گا اور کہے گا:"کیا تم میری بات پر عمل نہیں کروگے؟وہ کہیں گے۔تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔؟وہ انھیں بت پوجنے کا حکم دے گا وہ اسی حالت میں رہیں گے ان کا رزق اترتا ہوگا ان کی معیشت بہت اچھی ہو گی پھر صور پھونکا جائے گا۔جو بھی اسے سنے گا وہ گردن کی ایک جانب کو جھکائے گا اور دوسری جانب کو اونچا کرے گا(گردنیں ٹیڑھی ہو جائیں گی)سب سے پہلا شخص جواسے سنے گاوہ اپنے اونٹوں کے حوض کی لپائی کر رہا ہوگا۔وہ پچھاڑ کھا کر گر جائے گا۔اور دوسرے لوگ بھی گر(کر مر) جائیں گے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک بارش نازل فرمائےگا۔جو ایک پھوار کے مانند ہو گی۔یا سائے کی طرح ہو گی۔شک کرنے والے نعمان (بن سالم) ہیں اس سے انسانوں کے جسم اُگ آئیں گے۔پھر صور میں دوسری بار پھونک ماری جائے گی۔تو وہ سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے،(زندہ ہو جا ئیں گے)پھر کہا جا ئے گا لوگو! اپنے پروردگارکی طرف آؤ!اور (فرشتوں سے کہا جائے گا ان کولاکھڑا کرو ان سے سوال پوچھے جائیں گے۔حکم دیا جا ئےگا۔آگ میں بھیجے جانے والوں کو(اپنی صفوں سے)باہرنکالو پوچھا جائے گا۔کتنوں میں سے (کتنے؟)کہاجائے گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔انھوں نے کہا: تویہ وہ دن ہو گا جو بچوں کو بوڑھا کردے گا۔ اور وہی دن ہو گا جب پنڈلی سے پردہ ہٹا(کر دیدار جمال کرایا) جائے گا۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن النعمان بن سالم ، قال: سمعت يعقوب بن عاصم بن عروة بن مسعود ، قال: سمعت رجلا ، قال لعبد الله بن عمرو : إنك تقول: إن الساعة تقوم إلى كذا وكذا، فقال: لقد هممت ان لا احدثكم بشيء إنما، قلت: إنكم ترون بعد قليل امرا عظيما، فكان حريق البيت، قال شعبة هذا: او نحوه، قال عبد الله بن عمرو: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يخرج الدجال في امتي، وساق الحديث بمثل حديث معاذ، وقال في حديثه: فلا يبقى احد في قلبه مثقال ذرة من إيمان إلا قبضته، قال محمد بن جعفر: حدثني شعبة بهذا الحديث مرات وعرضته عليه.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا ، قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو : إِنَّكَ تَقُولُ: إِنَّ السَّاعَةَ تَقُومُ إِلَى كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُحَدِّثَكُمْ بِشَيْءٍ إِنَّمَا، قُلْتُ: إِنَّكُمْ تَرَوْنَ بَعْدَ قَلِيلٍ أَمْرًا عَظِيمًا، فَكَانَ حَرِيقَ الْبَيْتِ، قَالَ شُعْبَةُ هَذَا: أَوْ نَحْوَهُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍوَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ مُعَاذٍ، وَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: فَلَا يَبْقَى أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ بِهَذَا الْحَدِيثِ مَرَّاتٍ وَعَرَضْتُهُ عَلَيْهِ. محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے نعمان بن سالم سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود سے سنا، انھوں نے کہا: میں نے ایک شخص کو سنا، اس نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے کہا: آپ یہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں (بات پوری ہوجائے) پر قیامت قائم ہوجائے گی۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ میں تم لوگوں کو کوئی حدیث نہ سناؤں، میں تو یہ کہاتھا کہ تم تھوڑی مدت کے بعد ایک بڑا معاملہ دیکھو گے تو بیت اللہ کے جلنے کا واقعہ ہوگیا۔شعبہ نے یہ الفاظ کہےیا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں دجال نمودار ہوگا۔"اور (اس کے بعد محمد بن جعفر نے) معاذ کی حدیث کےمانند حدیث بیان کی اور اپنی حدیث میں کہا: "کوئی ا یک شخص بھی جس نے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو، نہیں بچے کا مگر وہ (ہوگا) اس کی روح قبض کرلے گی۔" محمد بن جعفر نے کہا: شعبہ نے مجھے یہ حدیث کئی بار سنائی اورمیں نے (کئی بار) اسے ان کے سامنے دہرایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک آدمی نے پوچھا،آپ کہتے ہیں،فلاں،فلاں،واقعات تک قیامت قائم ہوجائے گی،انہوں نے جواب دیا ہے،میں نے ارادہ کیا ہے،تمہیں کوئی چیز نہ بتاؤں،(کیونکہ بات کو صحیح طور پر سمجھتے نہیں ہو)میں نے تو کہا تھا،تم تھوڑی مدت کے بعد ایک بڑا حادثہ دیکھ لوگے تو بیت اللہ کو جلادیا گیا،(شعبہ نے یہ یا اس قسم کا لفظ کہا)،حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میری امت میں دجال نکلے گا۔"آگے مذکورہ بالاحدیث ہے اور اس حدیث میں،مثقال ذرۃ من ایمان،ہے،خیر کالفظ نہیں ہے،شعبہ نے یہ حدیث،محمد بن جعفر کو کئی دفعہ سنائی اور اس نے بھی ان پر پیش کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، عن ابي حيان ، عن ابي زرعة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا لم انسه بعد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن اول الآيات خروجا طلوع الشمس من مغربها، وخروج الدابة على الناس ضحى، وايهما ما كانت قبل صاحبتها، فالاخرى على إثرها قريبا "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى، وَأَيُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا، فَالْأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِيبًا "، محمد بن بشیر نے ابو حیان سے، انھوں نے ابو زرعہ سے اور انھوں نے حضر ت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی حدیث سنی ہے جس کو سننے کے بعد میں اسے بھولا نہیں۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: "نمودار ہونے والی سب سے پہلے نشانی مغرب سے سورج کا طلوع ہونا اور دن چڑھے لوگوں کے سامنے زمین کے چوپائے کانکلنا ہے۔ان میں سے جو بھی نشانی دوسری سے پہلے ظاہر ہوگی، دوسری اس کے بعد جلد نمودار ہوجائے گی۔" حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی حدیث سنی ہے،جس کو میں ابھی تک بھولا نہیں ہوں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:"وقوع قیامت کی سب سے پہلے جو نشانی ظاہر ہوگی،وہ سورج کامغرب سے نکلنا ہے اوردابۃ لوگوں کے سامنے چاشت کے وقت نکل چکا ہوگا،ان دونوں میں سے جو بھی نشانی اپنے ساتھ والی سے پہلے ہو،دوسری جلد ہی اس کے پیچھے نکل آئے گی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا ابو حيان ، عن ابي زرعة ، قال: جلس إلى مروان بن الحكم بالمدينة ثلاثة نفر من المسلمين، فسمعوه وهو يحدث عن الآيات ان اولها خروجا الدجال، فقال عبد الله بن عمرو : لم يقل مروان شيئا قد حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا لم انسه بعد، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: فذكر بمثله،وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، قَالَ: جَلَسَ إِلَى مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ بِالْمَدِينَةِ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَسَمِعُوهُ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنِ الْآيَاتِ أَنَّ أَوَّلَهَا خُرُوجًا الدَّجَّالُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : لَمْ يَقُلْ مَرْوَانُ شَيْئًا قَدْ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فَذَكَرَ بِمِثْلِهِ، عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں ابو حیان نے ابوزرعہ سے بیان کیا، کہا: مسلمانوں میں سے تین شخص مدینہ میں مروان بن حکم کے پاس بیٹھے تھے اور اسے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے سن رہے تھے کہ ان میں سے پہلی دجال کا ظہور ہوگا، اس پر حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: (تم لوگ یوں سمجھو کہ) مردان نے کچھ بھی نہیں کہا (کیونکہ اس کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق نہیں) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی جسے میں بھولا نہیں۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔ پھر اسی (سابقہ حدیث) کے مانند بیان کیا۔ ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،مدینہ میں مروان بن حکم کے پاس تین مسلمان افراد بیٹھے،انہوں نے اس سے سنا کہ وہ نشانیوں کے بارے میں بیان کررہا ہے،اس نے کہا،سب سے پہلے نشانی،دجال کا نکلنا ہے تو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا،مروان نے کوئی وزنی بات نہیں کہی،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث یاد کی ہے،جسے میں ابھی تک بھولا نہیں ہوں،آگے مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان نے ابو حیان سے اور انھوں نے ابو زرعہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: لوگوں نے مردان کی موجودگی میں قیامت کے بارے میں مذاکرہ کیا تو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔ (آگے) ان دونوں کی حدیث کے مانند بیان کیا اور "دن چڑھنے کے وقت"کاذ کر نہیں کیا۔ ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،لوگوں نے مروان کے سامنے قیامت کے بارے میں باہمی گفتگو کی تو حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئےسنا ہے،آگے مذکورہ بالاحدیث ہے،لیکن اس میں چاشت کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|