كِتَاب الْجَنَائِزِ جنازے کے احکام و مسائل The Book of Prayer - Funerals 35. باب مَا يُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لأَهْلِهَا: باب: قبر میں داخل کرتے وقت کیا کہنا چاہئیے اور قبر والوں کے لئے دعا کا بیان۔ Chapter: What is to be said when entering the graveyard and supplicating for its occupants یحییٰ بن یحییٰ تمیمی، یحییٰ بن ایوب اور قتیبہ بن سعید نے ہمیں حدیث سنائی۔۔۔یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: ہمیں خبر دی اور دوسرے دونوں نے کہا: ہمیں حدیث سنائی۔۔۔اسماعیل بن جعفر نے شریک سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا:۔۔۔جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری ان کے پاس ہوتی تو۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں بقیع (کے قبرستان میں) تشریف لے جاتے اور فرماتے: "اے ایمان رکھنے والی قوم کے گھرانے!تم پر اللہ کی سلامتی ہو، کل کے بارے میں تم سے جس کا وعدہ کیا جاتا تھا، وہ تم تک پہنچ گیا۔تم کو (قیامت) تک مہلت دے دی گئی اور ہم بھی، اگر اللہ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں۔اے اللہ!بقیع غرقد (میں رہنے) والوں کو بخش دے۔"قتیبہ نے (اپنی روایت) میں"واتاکم" (تم تک پہنچ گیا) نہیں کہا۔۔۔ امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت نقل کرتےہیں، انہوں نے کہا (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے ہاں ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصہ میں بقیع (اہل مدینہ کا قبرستان) تشریف لے جاتے اور فرماتے: ”اے مومنو کے گھر کے باسیو! تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی نازل ہو۔ جس کا تم سے وعدہ تھا آچکا، کل تک تمہیں مہلت ہے، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو معاف فرما۔“ اورقتیبہ کی روایت میں ”اتاكم“ کا لفظ نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
وحدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرنا ابن جريج ، عن عبد الله بن كثير بن المطلب ، انه سمع محمد بن قيس ، يقول: سمعت عائشة تحدث، فقالت: الا احدثكم عن النبي صلى الله عليه وسلم وعني؟، قلنا: بلى. ح وحدثني من سمع حجاجا الاعور، واللفظ له قال: حدثنا حجاج بن محمد ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني عبد الله رجل من قريش، عن محمد بن قيس بن مخرمة بن المطلب ، انه قال يوما: الا احدثكم عني وعن امي؟، قال: فظننا انه يريد امه التي ولدته، قال: قالت عائشة : الا احدثكم عني وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قلنا: بلى، قال: قالت: لما كانت ليلتي التي كان النبي صلى الله عليه وسلم فيها عندي، انقلب فوضع رداءه، وخلع نعليه فوضعهما عند رجليه، وبسط طرف إزاره على فراشه، فاضطجع فلم يلبث إلا ريثما ظن ان قد رقدت، فاخذ رداءه رويدا وانتعل رويدا، وفتح الباب فخرج ثم اجافه رويدا، فجعلت درعي في راسي واختمرت، وتقنعت إزاري ثم انطلقت على إثره، حتى جاء البقيع فقام، فاطال القيام ثم رفع يديه ثلاث مرات، ثم انحرف فانحرفت فاسرع فاسرعت، فهرول فهرولت، فاحضر فاحضرت فسبقته، فدخلت فليس إلا ان اضطجعت فدخل، فقال: ما لك يا عائش حشيا رابية؟" قالت: قلت: لا شيء، قال:" لتخبريني او ليخبرني اللطيف الخبير، قالت: قلت: يا رسول الله بابي انت وامي فاخبرته، قال: فانت السواد الذي رايت امامي، قلت: نعم فلهدني في صدري لهدة اوجعتني، ثم قال: اظننت ان يحيف الله عليك ورسوله"، قالت: مهما يكتم الناس يعلمه الله نعم، قال: فإن جبريل اتاني حين رايت فناداني، فاخفاه منك فاجبته فاخفيته منك، ولم يكن يدخل عليك، وقد وضعت ثيابك، وظننت ان قد رقدت فكرهت ان اوقظك، وخشيت ان تستوحشي، فقال: إن ربك يامرك ان تاتي اهل البقيع فتستغفر لهم، قالت: قلت: كيف اقول لهم يا رسول الله؟، قال: قولي السلام على اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، ويرحم الله المستقدمين منا والمستاخرين، وإنا إن شاء الله بكم للاحقون".وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ، فَقَالَتْ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنِّي؟، قُلْنَا: بَلَى. ح وحَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ حَجَّاجًا الْأَعْوَرَ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ بْنِ الْمُطَّلِبِ ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ أُمِّي؟، قَالَ: فَظَنَنَّا أَنَّهُ يُرِيدُ أُمَّهُ الَّتِي وَلَدَتْهُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا عِنْدِي، انْقَلَبَ فَوَضَعَ رِدَاءَهُ، وَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَاضْطَجَعَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنْ قَدْ رَقَدْتُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا وَانْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَهُ رُوَيْدًا، فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلَى إِثْرِهِ، حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ فَسَبَقْتُهُ، فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ، فَقَالَ: مَا لَكِ يَا عَائِشُ حَشْيَا رَابِيَةً؟" قَالَتْ: قُلْتُ: لَا شَيْءَ، قَالَ:" لَتُخْبِرِينِي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ، قَالَ: فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي، قُلْتُ: نَعَمْ فَلَهَدَنِي فِي صَدْرِي لَهْدَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ: أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ"، قَالَتْ: مَهْمَا يَكْتُمِ النَّاسُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ فَنَادَانِي، فَأَخْفَاهُ مِنْكِ فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ، وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قَالَتْ: قُلْتُ: كَيْفَ أَقُولُ لَهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا والمُستَأخِرينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَلَاحِقُونَ". عبداللہ بن وہب نے ہمیں حدیث سنائی اور کہا: ابن جریج نے عبداللہ بن کثیر بن مطلب سے روایت کی، انھوں نے محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب (المطلبی) کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ حدیث بیان کررہی تھیں، انھوں نے کہا: کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی طرف سے حدیث نہ سناؤں؟ہم نے کہا: کیوں نہیں۔۔۔اور حجاج بن محمد نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث سنائی، کہا: قریش کے ایک فرد عبداللہ نے محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب سے روایت کی کہ ایک دن انھوں نے کہا؛کیا میں تمھیں اپنی اور اپنی ماں کی طرف سے حدیث نہ سناؤں؟کہا: ہم نے سمجھا کہ ان کی مراد اپنی اس ماں سے ہے جس نے انھیں جنم دیا (لیکن انھوں نے) کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا میں تمھیں اپنی طرف سے اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حدیث نہ سناؤں؟ہم نے کہا: کیوں نہیں!کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: (ایک دفعہ) جب میری (باری کی) رات ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تھے، آپ (مسجد سے) لوٹے، اپنی چادر (سرہانے) رکھی، اپنے دونوں جوتے اتار کر اپنے دونوں پاؤں کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھایا، پھر لیٹ گئے۔آپ نے صرف اتنی دیر انتظار کیا کہ آپ نے خیال کیا میں سو گئی ہوں، تو آپ نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی، آہستہ سے اپنے جوتے پہنے اور آہستہ سے دروازہ کھولا، نکلے، پھر آہستہ سے اس کو بند کردیا۔ (یہ دیکھ کر) میں نے بھی اپنی قمیص سر سے گزاری (جلدی سے پہنی) اپنا دوپٹا اوڑھا اور اپنی آزار (کمر پر) باندھی، پھر آپ کے پیچھے چل پڑی حتیٰ کہ آپ بقیع (کے قبرستان میں) پہنچے اور کھڑے ہوگئے اور آپ لمبی دیر تک کھڑے رہے، پھر آپ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے، پھر آپ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی، آپ تیز ہوگئے تو میں بھی تیز ہوگئی، آپ تیز تر ہوگئے تو میں بھی تیز تر ہوگئی۔آپ دوڑ کر چلے تو میں نے بھی دوڑنا شروع کردیا۔میں آپ سے آگے نکل آئی اور گھر میں داخل ہوگئی۔جونہی میں لیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں داخل ہوگئے اور فرمایا: "عائشہ! تمھیں کیا ہوا کانپ رہی ہو؟سانس چڑھی ہوئی ہے۔"میں نے کہا کوئی بات نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم مجھے بتاؤ گی یا پھر وہ مجھے بتائے گا جو لطیف وخبیر ہے (باریک بین ہے اور انتہائی باخبر) ہے۔"میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں!اور میں نے (پوری بات) آپ کو بتادی۔آپ نے فرمایا: "تو وہ سیاہ (ہیولا) جو میں نے اپنے آگے دیکھا تھا، تم تھیں؟"میں نے کہا: ہاں۔آپ نے میرے سینے کو زور سے دھکیلا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔پھر آپ نے فرمایا: "کیا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ تم پر زیادتی کرے گا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: لوگ (کسی بات کو) کتنا ہی چھپا لیں اللہ اس کوجانتا ہے، ہاں۔آپ نے فرمایا: "جب تو نے (مجھے جاتے ہوئے) دیکھاتھا اس وقت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے۔انھوں نے (آکر) مجھے آواز دی اور اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھا، میں نے ان کو جواب دیا تو میں نے بھی تم سے اس کو مخفی رکھا اور وہ تمہارے پاس اندر نہیں آسکتے تھے تم کپڑے اتار چکیں تھیں اور میں نے خیال کیا کہ تم سوچکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہواکہ تم (اکیلی) وحشت محسوس کروگی۔تو انھوں (جبرئیل علیہ السلام) نے کہا: آپ کا رب آپ کو حکم دیتاہے کہ آپ اہل بقیع کے پاس جائیں اور ان کے لئے بخشش کی دعا کریں۔" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: میں نے پوچھا: اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ان کے حق میں (دعا کے لئے) کیسے کہوں؟آپ نے فرمایا: "تم کہو، مومنوں اور مسلمانوں میں سے ان ٹھکانوں میں رہنے والوں پر سلامتی ہو، اللہ تعالیٰ ہم سے آگے جانے والوں اور بعد میں آنے والوں پر رحم کرے، اور ہم ان شاء اللہ ضرور تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔" محمد بن قیس بن مخرمہ بن مطلب نے ایک دن ساتھیوں سے کہا، کیا میں تمھیں اپنے اور اپنی ماں کے بارے میں بات نہ بتاؤں؟ ساتھیوں نے خیال کیا کہ وہ اپنی ماں مراد لے رہا ہے جس نے اسے جنا ہے، اس نے کہا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: کیا میں تمھیں اپنے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں، توعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جب میری وہ رات ہوئی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں ہوتے تھے، آپ گھر لوٹے (مسجد سے گھر آئے)، اپنی چادر(چارپائی پر) رکھی، اپنے جوتے اتار کر اپنے پاؤں (پینتی) کے پاس رکھے اور اپنے تہبند کا ایک حصہ بستر پر بچھا کر لیٹ گئے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنی دیر ٹھہرے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا میں سو گئی ہوں، تو آپ نے آہستگی سے (تاکہ میں بیدار نہ ہوجاؤں) اپنی چادر اٹھائی، آہستگی سے اپنا جوتا پہنا اور دروازہ کھول کر نکلے اور اسے آہستگی سے بند کر دیا۔ میں نے بھی اپنی قمیص گلے میں ڈالی، اپنی اوڑھنی کو ڈوپٹہ بنایا اور اپنی تہبند باندھ لی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل نکلی، حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم بقیع (قبرستان) پہنچ گئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کافی دیر تک کھڑے رہے پھر آپ نے تین دفعہ ہاتھ اٹھائے، پھر آپ پلٹے اور میں بھی واپس لوٹی، آپصلی اللہ علیہ وسلم تیز ہو گئے تو میں بھی تیز ہو گئی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دوڑ لگائی تو میں نے بھی دوڑ پڑی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تیز دوڑ شروع کی تو میں بھی تیز دوڑ پڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی اور گھر میں داخل ہو کر لیٹ گئی۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں داخل ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”اے عائشہ! تمھیں کیا ہوا سانس پھولا ہوا ہے، اور پیٹ ابھرا ہوا ہے۔“ میں نے کہا: کوئی بات نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھے بتاؤ دو یا مجھے باریک بین، واقف آگاہ (اللہ تعالی) بتا دے گا“ تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! اور میں نےصورتِ حال بتا دی۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ شخص جو مجھے اپنےآگے نظر آ رہا تھا تم تھیں؟“ میں نے کہا: ہاں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے کو زور سے دھکا دیا جس سے مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے یہ خیال کیا کہ تم پر اللہ اور اس کا رسول زیادتی کرے گا؟“تیری باری میں کسی اور کے پاس چلا جاؤں گا میں نے دل میں کہا: لوگ کتنا ہی چھپائیں اللہ اسے جانتا ہے، (آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیتا ہے) خود ہی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ہاں کہا۔ (اور گمان و نظریہ کی تصدیق کی) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو نے دیکھا، اس وقت میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آیا اوراس نے مجھے آواز دی اور اپنی آواز تچھ سے مخفی رکھی، میں تجھ سے پوشیدہ رکھ کر اس کو جواب دیا، اور وہ اندر تیرے پاس نہیں آ سکتا تھا کیونکہ تم کپڑے اتار چکی تھی (سونے کا لباس پہن لیا تھا) اور میں نے خیال کیا کہ تم سو چکی ہو تو میں نے تمھیں بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ تم (اگر تم جاگ گئی تو اکیلی) وحشت محسوس کرو گی۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا: آپ کے رب کا حکم ہے کہ اہل بقیع کے پاس جا کر ان کے لئے بخشش کی دعا کرو۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں ان کے حق میں کیسے دعا کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہوسلام ہو تم پر اے گھروں والو! مومنوں میں سے اور مسلمانوں میں سے، اللہ تعالیٰ ہم سے پہلے اور بعد میں آنے والوں پر رحم فرمائے۔ اور ہم اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابو بکر بن ابی شیبہ اور زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں محمد بن عبد اللہ اسدی نے سفیان سے حدیث سنائی، انھوں نے علقمہ بن مرثد سے، انھوں نے سلیمان بن بریدہ سے اور انھوں نے ا پنے والد (بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب وہ قبرستان جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تعلیم دیا کرتے تھے تو (سیکھنے کے بعد) ان کا کہنے والا کہتا: ابو بکر کی روایت میں ہے: "سلامتی ہو مسلمانوں اور مومنوں کے ٹھکانوں میں رہنے والوں پر"اورزہیر کی روایت میں ہے؛"مسلمانوں اور مومنوں کے ٹھکانے میں رہنے والو تم پر۔۔۔اور ہم ان شاء اللہ ضرور (تمہارے ساتھ) ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمھارے لئے عافیت مانگتا ہوں۔" حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو اس طرح جا کر کہیں، ابوبکر کی روایت ہے: ”السَّلامُ عَلَي أَهْل الدِّيارِ“ ”اے گھر والو! سلام ہو۔ اور زہیر کی روایت ہے۔ ”السَّلامُ عَلَيكُمْ أَهْل الدِّيارِ“ "اے گھر والو تم پر سلام! مومنوں میں سے اور مسلمانوں میں سے اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت (سکھ،چین اور سکون) کا سوال کرتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|