اذان، خطبہ جمعہ، اور اس دوران مقتدیوں کا بغور خطبہ سُننا اور خاموش رہنا اور ان افعال کے ابواب کا مجموعہ جو اُن کے لئے جائز ہیں اور جو منع ہیں
1195.
اسں اذان کا بیان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں موجود تھی۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حُکم دیا ہے کہ جب وہ اذان دے دی جائے تو جمعہ کے لئے جلدی کی جائے اور اس وقت کا بیان جب یہ اذان دی جاتی تھی اور اسں شخص کا ذکر جس نے امام کے تشریف لانے سے پہلے پہلی اذان دینی شروع کی تھی
نا ابو موسى، نا ابو عامر، نا ابن ابي ذئب، عن الزهري، عن السائب وهو ابن يزيد، قال:" كان النداء الذي ذكر الله في القرآن يوم الجمعة إذا خرج الإمام , وإذا قامت الصلاة في زمن النبي صلى الله عليه وسلم، وابي بكر، وعمر , حتى كان عثمان , فكثر الناس , فامر بالنداء الثالث على الزوراء , فثبت حتى الساعة" . قال ابو بكر في قوله: وإذا قامت الصلاة: يريد النداء الثاني الإقامة , والاذان والإقامة يقال لهما: اذانان , الم تسمع النبي صلى الله عليه وسلم قال:" بين كل اذانين صلاة"؟ وإنما اراد: بين كل اذان وإقامة. والعرب قد تسمي الشيئين باسم الواحد إذا قرنت بينهما. قال الله عز وجل: ولابويه لكل واحد منهما السدس سورة النساء آية 11، وقال: وورثه ابواه فلامه الثلث سورة النساء آية 11 وإنما هما اب وام , فسماهما الله ابوين. ومن هذا الجنس خبر عائشة: كان طعامنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم الاسودين: التمر والماء. وإنما السواد للتمر خاصة دون الماء , فسمتهما عائشة الاسودين , لما قرنت بينهما. ومن هذا الجنس قيل: سنة العمرين. وإنما اريد ابو بكر، وعمر , لا كما توهم من ظن انه اريد عمر بن الخطاب , وعمر بن عبد العزيز. والدليل على انه اراد بقوله: وإذا قامت الصلاة النداء الثاني المسمى إقامةنا أَبُو مُوسَى، نا أَبُو عَامِرٍ، نا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ وَهُوَ ابْنُ يَزِيدَ، قَالَ:" كَانَ النِّدَاءُ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ فِي الْقُرْآنِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذَا خَرَجَ الإِمَامُ , وَإِذَا قَامَتِ الصَّلاةُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ , حَتَّى كَانَ عُثْمَانُ , فَكَثُرَ النَّاسُ , فَأَمَرَ بِالنِّدَاءِ الثَّالِثِ عَلَى الزَّوْرَاءِ , فَثَبَتَ حَتَّى السَّاعَةِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي قَوْلِهِ: وَإِذَا قَامَتِ الصَّلاةُ: يُرِيدُ النِّدَاءَ الثَّانِيَ الإِقَامَةَ , وَالأَذَانُ وَالإِقَامَةُ يُقَالُ لَهُمَا: أَذَانَانِ , أَلَمْ تَسْمَعِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاةٌ"؟ وَإِنَّمَا أَرَادَ: بَيْنَ كُلِّ أَذَانٍ وَإِقَامَةٍ. وَالْعَرَبُ قَدْ تُسَمِّي الشَّيْئَيْنِ بِاسْمِ الْوَاحِدِ إِذَا قَرَنَتْ بَيْنَهُمَا. قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ سورة النساء آية 11، وَقَالَ: وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأُمِّهِ الثُّلُثُ سورة النساء آية 11 وَإِنَّمَا هُمَا أَبٌ وَأُمٌّ , فَسَمَّاهُمَا اللَّهُ أَبَوَيْنِ. وَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ خَبَرُ عَائِشَةَ: كَانَ طَعَامُنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الأَسْوَدَيْنِ: التَّمْرَ وَالْمَاءَ. وَإِنَّمَا السَّوَادُ لِلتَّمْرِ خَاصَّةً دُونَ الْمَاءِ , فَسَمَّتْهُمَا عَائِشَةُ الأَسْوَدَيْنِ , لَمَّا قَرَنَتْ بَيْنَهُمَا. وَمِنْ هَذَا الْجِنْسِ قِيلَ: سُنَّةُ الْعُمَرَيْنِ. وَإِنَّمَا أُرِيدَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ , لا كَمَا تَوَهَّمَ مَنْ ظَنَّ أَنَّهُ أُرِيدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ , وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ. وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّهُ أَرَادَ بِقَوْلِهِ: وَإِذَا قَامَتِ الصَّلاةُ النِّدَاءَ الثَّانِيَ الْمُسَمَّى إِقَامَةً
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جمعہ کے دن جس اذان کا ذکر کیا ہے وہ اُس وقت دی جاتی تھی جب امام (خطبہ جمعہ کے لئے) تشریف لے آتا اور (دوسری اذان یعنی اقامت) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں اُس وقت کہی جاتی جب نماز کھڑی ہوتی۔ حتّیٰ کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا عہد آیا تو لوگ زیادہ ہوگئے، لہٰذا اُنہوں نے تیسری اذان زوراء مقام پر کہنے کا حُکم دیا ـ چنانچہ وہ اذان آج تک باقی ہے ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حدیث کے ان الفاظ ”اور جب نماز کھڑی ہوتی“ سے مراد دوسری اذان یعنی اقامت مراد ہے ـ اور اذان و اقامت کو ”اذانان“(دو اذانیں) کہا جاتا ہے - کہا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ آپ فرماتے ہیں: ”ہر دو اذانوں کے درمیان (نفل) نماز ہے ـ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہر اذان اور اقامت کے درمیان ہے۔ اور عرب دو ملی ہوئی چیزوں کو ایک ہی نام دے دیتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے «وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا» [ سورة النساء: 11 ]” والدین میں سے ہر ایک کا چھٹا حصّہ ہے۔“ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے «وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ» [ سورة النساء: 11 ]” اور اس کے وارث اس کے والدین ہوں تو اس کی والدہ کو تیسرا حصّہ ملے گا -“ جبکہ والدین سے مراد ماں اور باپ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لئے ”أبوین“(دو باپ) کا لفظ بولا ہے ـ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہمارا کھانا دو سیاہ چیزیں ہوتی تھیں، کھجور اور پانی - جبکہ سیاہ رنگ صرف کھجور کا ہوتا ہے پانی کا نہیں ـ اس کے باوجود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دونوں کو ”اسودین“(دو سیاہ چیزیں) کا نام دیا ہے۔ جبکہ ان دونوں کو ملا دیا گیا تھا۔ اسی قسم کی ایک مثال ”سُنَّةُ الْعُمَرَيْنِ“(عمرین کا طریقہ اور سنّت) اور اس سے مراد سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا طریقہ ہوتا ہے، اور اس سے مراد سیدنا عمر بن خطاب اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہما کا طریقہ نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی اور وہم ہوا ہے ـ اور اس بات کی دلیل کہ حدیث کے ان الفاظ ”اور جب نماز کھڑی ہوتی“ سے مراد دوسری اذان ہے جسے اقامت کہتے ہیں۔ (درج ذیل حدیث ہے)۔
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں جمعہ کے دن دو اذانیں ہوتی تھیں ـ (اذان اور اقامت)۔ حتّیٰ کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تو اُنہوں نے پہلی اذان روراء مقام پر دینے کا حُکم دیا۔