ثنا به الربيع مرة اخرى من كتابه، وقال:" فليبن على ما استيقن، ثم يسجد سجدتين من قبل السلام". وقال ابو موسى، والدورقي، ويونس: إذا شك احدكم في صلاته فلا يدري ثلاثا صلى ام اربعا، فليصل ركعة، ويسجد سجدتين قبل السلام، ثم باقي حديثهم مثل حديث الربيع. قال لنا ابو بكر: في هذا الخبر عندي دلالة على ان صاحب المال إذا كان ماله غائبا عنه، فاخرج زكاته واوصلها إلى اهل سهمان الصدقة، ناويا إن كان ماله سالما فهي زكاته، وإن كان ماله مستهلكا فهو تطوع، ثم بان عنده وصح ان ماله كان سالما، ان ماله الذي اوصله إلى اهل سهمان الصدقة كان جائزا عنه في الصدقة المفروضة في ماله الغائب، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اجاز عن المصلي هذه الركعة التي صلاها بإحدى اثنتين، إن كانت صلاته التي صلاها ثلاثا، فهذه الركعة رابعة التي هي فرض عليه، وإن كانت صلاته تامة فهذه الركعة نافلة، فقد اجزت عنه هذه الركعة من الفريضة، وهو إنما صلاها على انها فريضة او نافلةثنا بِهِ الرَّبِيعُ مَرَّةً أُخْرَى مِنْ كِتَابِهِ، وَقَالَ:" فَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ مِنْ قَبْلِ السَّلامِ". وَقَالَ أَبُو مُوسَى، وَالدَّوْرَقِيُّ، وَيُونُسُ: إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاتِهِ فَلا يَدْرِي ثَلاثًا صَلَّى أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيُصَلِّ رَكْعَةً، وَيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ السَّلامِ، ثُمَّ بَاقِي حَدِيثِهِمْ مِثْلُ حَدِيثِ الرَّبِيعِ. قَالَ لَنَا أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ عِنْدِي دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ صَاحِبَ الْمَالِ إِذَا كَانَ مَالُهُ غَائِبًا عَنْهُ، فَأَخْرَجَ زَكَاتَهُ وَأَوْصَلَهَا إِلَى أَهْلِ سُهْمَانَ الصَّدَقَةِ، نَاوِيًا إِنْ كَانَ مَالُهُ سَالِمًا فَهِيَ زَكَاتُهُ، وَإِنْ كَانَ مَالُهُ مُسْتَهْلَكًا فَهُوَ تَطَوُّعٌ، ثُمَّ بَانَ عِنْدَهُ وَصَحَّ أَنَّ مَالَهُ كَانَ سَالِمًا، أَنَّ مَالَهُ الَّذِي أَوْصَلَهُ إِلَى أَهْلِ سُهْمَانَ الصَّدَقَةِ كَانَ جَائِزًا عَنْهُ فِي الصَّدَقَةِ الْمَفْرُوضَةِ فِي مَالِهِ الْغَائِبِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَازَ عَنِ الْمُصَلِّي هَذِهِ الرَّكْعَةَ الَّتِي صَلاهَا بِإِحْدَى اثْنَتَيْنِ، إِنْ كَانَتْ صَلاتُهُ الَّتِي صَلاهَا ثَلاثًا، فَهَذِهِ الرَّكْعَةُ رَابِعَةُ الَّتِي هِيَ فَرْضٌ عَلَيْهِ، وَإِنْ كَانَتْ صَلاتُهُ تَامَّةً فَهَذِهِ الرَّكْعَةُ نَافِلَةٌ، فَقَدْ أَجْزَتْ عَنْهُ هَذِهِ الرَّكْعَةُ مِنَ الْفَرِيضَةِ، وَهُوَ إِنَّمَا صَلاهَا عَلَى أَنَّهَا فَرِيضَةٌ أَوْ نَافِلَةٌ
امام صاحب فرماتے ہیں کہ امام ربیع نے ہمیں ایک مر تبہ اپنی کتاب سے بیان کر تے ہوئے فرمایا کہ لہٰذا وہ یقین پر بنا کرے، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے اور جناب ابوموسٰی دورتی اور یونس نے اپنی روایت میں کہا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے، پھر اسے پتہ نہ چلے کہ اس نے تین رکعات پڑھی ہیں یا چار، تو اسے ایک رکعت پڑھ لینی چاہیے اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔ ان کی باقی روایت جناب ربیع کی روایت کی طرح ہی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله نے فرمایا کہ اس حدیث میں میرے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ مالدار شخص کا مال جب اس کے پاس موجود نہ ہو (تجارت وغیرہ کی غرض سے کسی علاقے میں بیٹھا ہوا ہو) پھر وہ اس کی زکوٰۃ نکال کر صدقے کے حق داروں کو پہنچادے اور اس کی نیت یہ ہو کہ اگر اس کا مال صحیح سلامت ہوا تو یہ اس کی زکوٰۃ ہے اور اگر اس کا مال ہلاک و تباہ ہو چکا ہوا تو یہ نفلی صدقہ ہے، پھر اسے صحیح اطلاع مل گئی کہ اس کا مال صحیح سلامت ہے تو اس کا وہ مال جو اُس نے اپنے غیر موجود مال کی فرض زکوٰۃ کے طور پر صدقہ و زکوٰۃ کے حق داروں کو پہنچایا تھا وہ جائز اور درست ہو گا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کی ایک رکعت کو جائز قرار دیا ہے۔ جو اُس نے دو طرح کی نیت سے ادا کی تھی۔ کہ اگر اس کی ادا شدہ نماز تین رکعات ہوئی تو یہ اس کی چوتھی فرض رکعت ہوگی، اور اگر اس کی نماز مکمّل ہو چکی تھی تو یہ رکعت نفل ہوگی۔ اور اس کی یہ رکعت فرض نماز سے کفایت کرجائے گی حالانکہ اس نے یہ رکعت فرض یا نفل کی نیت سے ادا کی تھی۔