قال يحيى: عن مالك، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: كان عتبة بن ابي وقاص عهد إلى اخيه سعد بن ابي وقاص ان ابن وليدة زمعة مني فاقبضه إليك، قالت: فلما كان عام الفتح، اخذه سعد، وقال: ابن اخي، قد كان عهد إلي فيه، فقام إليه عبد بن زمعة، فقال: اخي، وابن وليدة ابي، ولد على فراشه. فتساوقا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال سعد: يا رسول الله، ابن اخي، قد كان عهد إلي فيه. وقال عبد بن زمعة: اخي وابن وليدة ابي، ولد على فراشه. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هو لك يا عبد بن زمعة"، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الولد للفراش وللعاهر الحجر". ثم قال لسودة بنت زمعة:" احتجبي منه" لما راى من شبهه بعتبة بن ابي وقاص، قالت: فما رآها حتى لقي الله عز وجل قَالَ يَحْيَى: عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي فَاقْبِضْهُ إِلَيْكَ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ، أَخَذَهُ سَعْدٌ، وَقَالَ: ابْنُ أَخِي، قَدْ كَانَ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ. فَتَسَاوَقَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي، قَدْ كَانَ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ. وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ". ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ:" احْتَجِبِي مِنْهُ" لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَتْ: فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص سے کہا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرے نطفہ سے ہے، تو اس کو اپنے پاس رکھیو، تو جب مکہ فتح ہوا، تو سعد نے اس لڑکے کو لے لیا اور کہا: میرے بھائی کا بیٹھا ہے، اس نے وصیت کی تھی اس کے لینے کی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ لڑکا میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ دونوں نے جھگڑا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، سعد نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بیٹا ہے میرے بھائی کا، اس نے مجھے وصیت کی تھی، اس بارے میں عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبد بن زمعہ سے: ”یہ لڑکا تیرا ہے۔“ پھر فرمایا: ”لڑکا ماں کے خاوند یا مالک کا ہوتا ہے اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہیں۔“ پھر سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ”تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر۔“ کیونکہ وہ لڑکا مشابہ تھا عتبہ بن ابی وقاص کے، سو اس لڑکے نے نہ دیکھا سودہ کو یہاں تک کہ انتقال ہوا اس کا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2053، 2218، 2421، 2533، 2745، 4303، 6749، 6765، 6817، 7182، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1457، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4105، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3514، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5648، 5651، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2273، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2282، 2283، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2004، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2130، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11579، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3850، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24587، والحميدي فى «مسنده» برقم: 240، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13818، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 20»
وحدثني وحدثني مالك، عن يزيد بن عبد الله بن الهادي ، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي ، عن سليمان بن يسار ، عن عبد الله بن ابي امية ، ان" امراة هلك عنها زوجها فاعتدت اربعة اشهر وعشرا، ثم تزوجت حين حلت فمكثت عند زوجها اربعة اشهر ونصف شهر، ثم ولدت ولدا تاما، فجاء زوجها إلى عمر بن الخطاب فذكر ذلك له، فدعا عمر نسوة من نساء الجاهلية قدماء، فسالهن عن ذلك، فقالت امراة منهن: انا اخبرك عن هذه المراة، هلك عنها زوجها حين حملت منه، فاهريقت عليه الدماء، فحش ولدها في بطنها، فلما اصابها زوجها الذي نكحها واصاب الولد الماء تحرك الولد في بطنها وكبر. فصدقها عمر بن الخطاب وفرق بينهما، وقال عمر:" اما إنه لم يبلغني عنكما إلا خير"، والحق الولد بالاول وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ ، أَنّ" امْرَأَةً هَلَكَ عَنْهَا زَوْجُهَا فَاعْتَدَّتْ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، ثُمَّ تَزَوَّجَتْ حِينَ حَلَّتْ فَمَكَثَتْ عِنْدَ زَوْجِهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَنِصْفَ شَهْرٍ، ثُمَّ وَلَدَتْ وَلَدًا تَامًّا، فَجَاءَ زَوْجُهَا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَدَعَا عُمَرُ نِسْوَةً مِنْ نِسَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ قُدَمَاءَ، فَسَأَلَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ: أَنَا أُخْبِرُكَ عَنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ، هَلَكَ عَنْهَا زَوْجُهَا حِينَ حَمَلَتْ مِنْهُ، فَأُهْرِيقَتْ عَلَيْهِ الدِّمَاءُ، فَحَشَّ وَلَدُهَا فِي بَطْنِهَا، فَلَمَّا أَصَابَهَا زَوْجُهَا الَّذِي نَكَحَهَا وَأَصَابَ الْوَلَدَ الْمَاءُ تَحَرَّكَ الْوَلَدُ فِي بَطْنِهَا وَكَبِرَ. فَصَدَّقَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، وَقَالَ عُمَرُ:" أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَبْلُغْنِي عَنْكُمَا إِلَّا خَيْرٌ"، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْأَوَّلِ
حضرت عبداللہ بن ابی امیہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا خاوند مر گیا تو اس نے چار مہینے دس دن تک عدت کی، پھر دوسرے شخص سے نکاح کر لیا، ابھی اس کے پاس ساڑھے چار مہینے رہی تھی کہ ایک لڑکا جنا خاصا پورا، تو اس کا خاوند سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے یہ حال بیان کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پرانی پرانی چند عورتوں کو جو جاہلیت کے زمانے میں تھیں، بلوایا اور ان سے پوچھا، ان میں سے ایک عورت بولی: میں تم کو اس عورت کا حال بتاتی ہوں، یہ حاملہ ہوگئی تھی اپنے پہلے خاوند سے جو مر گیا، تو حیض کا خون بچے پر پڑتے پڑتے وہ بچہ سوکھ گیا تھا اس کے پیٹ میں، تو جب اس نے دوسرا نکاح کیا، مرد کی منی پہنچنے سے پھر بچے کو حرکت ہوئی اور بڑا ہو گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی تصدیق کی اور نکاح توڑ ڈالا، اور فرمایا کہ خیر ہوئی تمہاری کوئی بری بات مجھے نہیں پہنچی، اور لڑکے کا نسب پہلے خاوند سے ثابت کیا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15559، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 4368، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 711، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13450، 13451، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 21»
وحدثني وحدثني مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن سليمان بن يسار ، ان عمر بن الخطاب كان يليط اولاد الجاهلية بمن ادعاهم في الإسلام،" فاتى رجلان كلاهما يدعي ولد امراة، فدعا عمر بن الخطاب قائفا، فنظر إليهما، فقال القائف: لقد اشتركا فيه، فضربه عمر بن الخطاب بالدرة، ثم دعا المراة، فقال:" اخبريني خبرك". فقالت: كان هذا لاحد الرجلين ياتيني وهي في إبل لاهلها، فلا يفارقها حتى يظن وتظن انه قد استمر بها حبل، ثم انصرف عنها فاهريقت عليه دماء، ثم خلف عليها هذا تعني الآخر، فلا ادري من ايهما هو. قال: فكبر القائف، فقال عمر للغلام: " وال ايهما شئت" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يُلِيطُ أَوْلَادَ الْجَاهِلِيَّةِ بِمَنِ ادَّعَاهُمْ فِي الْإِسْلَامِ،" فَأَتَى رَجُلَانِ كِلَاهُمَا يَدَّعِي وَلَدَ امْرَأَةٍ، فَدَعَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَائِفًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِمَا، فَقَالَ الْقَائِفُ: لَقَدِ اشْتَرَكَا فِيهِ، فَضَرَبَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالدِّرَّةِ، ثُمَّ دَعَا الْمَرْأَةَ، فَقَالَ:" أَخْبِرِينِي خَبَرَكِ". فَقَالَتْ: كَانَ هَذَا لِأَحَدِ الرَّجُلَيْنِ يَأْتِينِي وَهِيَ فِي إِبِلٍ لِأَهْلِهَا، فَلَا يُفَارِقُهَا حَتَّى يَظُنَّ وَتَظُنَّ أَنَّهُ قَدِ اسْتَمَرَّ بِهَا حَبَلٌ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهَا فَأُهْرِيقَتْ عَلَيْهِ دِمَاءٌ، ثُمَّ خَلَفَ عَلَيْهَا هَذَا تَعْنِي الْآخَرَ، فَلَا أَدْرِي مِنْ أَيِّهِمَا هُوَ. قَالَ: فَكَبَّرَ الْقَائِفُ، فَقَالَ عُمَرُ لِلْغُلَامِ: " وَالِ أَيَّهُمَا شِئْتَ"
حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جاہلیت کے بچوں کو جو ان کا دعویٰ کرتا اسلام کے زمانے میں اسی سے ملا دیتے (یعنی نسب ثابت کر دیتے)۔ ایک بار دو آدمی دعویٰ کرتے ہوئے آئے ایک لڑکے کا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قائف کو (یعنی قیافہ جاننے والے کو) بلایا، قائف نے دیکھ کر کہا: اس لڑکے میں دونوں شریک ہیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قائف کو درّے سے مارا، پھر اس عورت کو (یعنی لڑکے کی ماں کو) بلایا اور کہا: تو اپنا حال مجھ سے کہہ۔ اس نے ایک مرد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میرے پاس آتا تھا اور میں اپنے لوگوں کے اونٹوں میں ہوتی تھی، تو وہ مجھ سے الگ نہیں ہوتا تھا بلکہ مجھ سے چمٹا رہتا تھا (یعنی جماع کیا کرتا تھا)، یہاں تک کہ وہ بھی اور میں بھی گمان کرتے حمل رہ جانے کا، پھر یہ چلا جاتا اور مجھے خون آیا کرتا، تب دوسرا مرد آتا، وہ بھی صحبت کرتا، میں نہیں جانتی ان دونوں میں سے یہ کس کا نطفہ ہے۔ قائف یہ سن کر خوشی کے مارے پھول گیا (کیونکہ اس کی بات سچی نکلی)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لڑکے سے: تجھے اختیار ہے، جس سے چاہے ان دنوں میں سے موالات کر لے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21263، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5999، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 12864، 13478، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 6165، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 22»
وحدثني وحدثني مالك انه بلغه، ان عمر بن الخطاب او عثمان بن عفان قضى احدهما في" امراة غرت رجلا بنفسها وذكرت انها حرة فتزوجها، فولدت له اولادا، فقضى ان يفدي ولده بمثلهم" . وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَوْ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَضَى أَحَدُهُمَا فِي" امْرَأَةٍ غَرَّتْ رَجُلًا بِنَفْسِهَا وَذَكَرَتْ أَنَّهَا حُرَّةٌ فَتَزَوَّجَهَا، فَوَلَدَتْ لَهُ أَوْلَادًا، فَقَضَى أَنْ يَفْدِيَ وَلَدَهُ بِمِثْلِهِمْ" .
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب ایک عورت نے دھوکہ سے اپنے کو آزاد قرار دے کر ایک شخص سے نکاح کیا اور اولاد ہوئی، یہ فیصلہ کیا کہ (وہ عورت لونڈی رہے اپنے مولیٰ کی، اور اولاد بھی اس کی مملوک ہے)، خاوند اپنی اولاد کو فدیہ دے کر چھڑا لے اس کے مانند غلام لونڈی دے کر۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم:219/7، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4257، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 13155، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 23»