قال مالك: احسن ما سمعت في وصية الحامل وفي قضاياها في مالها وما يجوز لها. ان الحامل كالمريض. فإذا كان المرض الخفيف، غير المخوف على صاحبه، فإن صاحبه يصنع في ماله ما يشاء. وإذا كان المرض المخوف عليه، لم يجز لصاحبه شيء إلا في ثلثه. قَالَ مَالِكٌ: أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِي وَصِيَّةِ الْحَامِلِ وَفِي قَضَايَاهَا فِي مَالِهَا وَمَا يَجُوزُ لَهَا. أَنَّ الْحَامِلَ كَالْمَرِيضِ. فَإِذَا كَانَ الْمَرَضُ الْخَفِيفُ، غَيْرُ الْمَخُوفِ عَلَى صَاحِبِهِ، فَإِنَّ صَاحِبَهُ يَصْنَعُ فِي مَالِهِ مَا يَشَاءُ. وَإِذَا كَانَ الْمَرَضُ الْمَخُوفُ عَلَيْهِ، لَمْ يَجُزْ لِصَاحِبِهِ شَيْءٌ إِلَّا فِي ثُلُثِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حاملہ بھی مثل بیمار کے ہے، اگر بیماری خفیف ہو جس میں موت کا خوف نہ ہو تو مالکِ مال کو اختیار ہے، جیسا چاہے تصرف کرے، البتہ جس بیماری میں موت کا خوف ہو تو تہائی سے زیادہ تصرف درست نہیں۔
قال مالك: وكذلك المراة الحامل اول. حملها بشر وسرور. وليس بمرض ولا خوف. لان اللٰه تبارك وتعالى قال في كتابه: ﴿فبشرناها بإسحاق ومن وراء إسحاق يعقوب﴾ وقال: ﴿فلما تغشاها حملت حملا خفيفا فمرت به فلما اثقلت دعوا اللٰه ربهما لئن آتيتنا صالحا لنكونن من الشاكرين﴾ [الاعراف: 189] فالمراة الحامل إذا اثقلت لم يجز لها قضاء إلا في ثلثها فاول الإتمام ستة اشهر. قال اللٰه تبارك وتعالى في كتابه: ﴿والوالدات يرضعن اولادهن حولين كاملين﴾ [البقرة: 233] وقال: ﴿وحمله وفصاله ثلاثون شهرا﴾ [الاحقاف: 15] فإذا مضت للحامل ستة اشهر من يوم حملت لم يجز لها قضاء في مالها إلا في الثلث. قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ الْمَرْأَةُ الْحَامِلُ أَوَّلُ. حَمْلِهَا بِشْرٌ وَسُرُورٌ. وَلَيْسَ بِمَرَضٍ وَلَا خَوْفٍ. لِأَنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي كِتَابِهِ: ﴿فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ﴾ وَقَالَ: ﴿فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾ [الأعراف: 189] فَالْمَرْأَةُ الْحَامِلُ إِذَا أَثْقَلَتْ لَمْ يَجُزْ لَهَا قَضَاءٌ إِلَّا فِي ثُلُثِهَا فَأَوَّلُ الْإِتْمَامِ سِتَّةُ أَشْهُرٍ. قَالَ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ: ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾ [البقرة: 233] وَقَالَ: ﴿وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾ [الأحقاف: 15] فَإِذَا مَضَتْ لِلْحَامِلِ سِتَّةُ أَشْهُرٍ مِنْ يَوْمَ حَمَلَتْ لَمْ يَجُزْ لَهَا قَضَاءٌ فِي مَالِهَا إِلَّا فِي الثُّلُثِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح حاملہ بھی اوائل حمل میں جب تک خوشی اور سرور اور صحت سے رہے، نہ مرض ہو نہ خوف، اپنے کل مال میں اختیار رکھے گی۔ اللہ جل جلالہُ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: ”ہم نے بشارت دی سارہ کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔“ اور فرمایا اللہ جل جلالہُ نے: ”جب آدمی نے عورت سے جماع کیا تو اس کو حمل ہو گیا، ہلکا ہلکا چلتے پھرتے رہے، جب حمل بھاری ہوا تو دونوں نے دعا کی اللہ سے جو ان کا رب تھا کہ اگر تو ہم کو نیک (یا صحیح وسالم) بچہ دے گا تو ہم تیرا شکر ادا کریں گے۔“ پس عورت حاملہ جب بوجھل ہوجائے تو اس وقت تہائی مال سے زیادہ اختیار نہیں رہتا، اور یہ بعد چھ مہینے کے ہے، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے: ”مائیں اپنے بچے کو دو برس کامل دودھ پلائیں جو شخص دودھ کی مدت پوری کرنا چاہے۔“ اور پھر فرماتا ہے: ”حمل اور دودھ چھڑائی اس کی تیس مہینے میں ہوتی ہے۔“ تو جب حاملہ پر چھ مہینے گزر جائیں حمل کے روز سے، اس وقت سے اس کا تصرف تہائی مال سے زیادہ میں درست نہ ہو گا۔
قال مالك في الرجل يحضر القتال: إنه إذا زحف في الصف للقتال، لم يجز له ان يقضي في ماله شيئا. إلا في الثلث. وإنه بمنزلة الحامل والمريض المخوف عليه ما كان بتلك الحال. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَحْضُرُ الْقِتَالَ: إِنَّهُ إِذَا زَحَفَ فِي الصَّفِّ لِلْقِتَالِ، لَمْ يَجُزْ لَهُ أَنْ يَقْضِيَ فِي مَالِهِ شَيْئًا. إِلَّا فِي الثُّلُثِ. وَإِنَّهُ بِمَنْزِلَةِ الْحَامِلِ وَالْمَرِيضِ الْمَخُوفِ عَلَيْهِ مَا كَانَ بِتِلْكَ الْحَالِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص صفِ جنگ میں کھڑا ہو، اور لڑائی کو جائے اس کو بھی تہائی مال سے زیادہ اپنے مال میں تصرف درست نہیں، وہ بھی حاملہ اور بیمار کے حکم میں ہے۔