حدثنا يحيى، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من غير دينه فاضربوا عنقه" . ومعنى قول النبي صلى الله عليه وسلم، فيما نرى والله اعلم من غير دينه فاضربوا عنقه: انه من خرج من الإسلام إلى غيره مثل الزنادقة واشباههم، فإن اولئك إذا ظهر عليهم قتلوا ولم يستتابوا، لانه لا تعرف توبتهم، وانهم كانوا يسرون الكفر ويعلنون الإسلام، فلا ارى ان يستتاب هؤلاء ولا يقبل منهم قولهم، واما من خرج من الإسلام إلى غيره واظهر ذلك، فإنه يستتاب، فإن تاب وإلا قتل، وذلك لو ان قوما كانوا على ذلك، رايت ان يدعوا إلى الإسلام ويستتابوا، فإن تابوا قبل ذلك منهم، وإن لم يتوبوا قتلوا، ولم يعن بذلك فيما نرى والله اعلم، من خرج من اليهودية إلى النصرانية ولا من النصرانية إلى اليهودية، ولا من يغير دينه من اهل الاديان كلها إلا الإسلام، فمن خرج من الإسلام إلى غيره واظهر ذلك، فذلك الذي عني به والله اعلمحَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ غَيَّرَ دِينَهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ" . وَمَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ مَنْ غَيَّرَ دِينَهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ: أَنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَى غَيْرِهِ مِثْلُ الزَّنَادِقَةِ وَأَشْبَاهِهِمْ، فَإِنَّ أُولَئِكَ إِذَا ظُهِرَ عَلَيْهِمْ قُتِلُوا وَلَمْ يُسْتَتَابُوا، لِأَنَّهُ لَا تُعْرَفُ تَوْبَتُهُمْ، وَأَنَّهُمْ كَانُوا يُسِرُّونَ الْكُفْرَ وَيُعْلِنُونَ الْإِسْلَامَ، فَلَا أَرَى أَنْ يُسْتَتَابَ هَؤُلَاءِ وَلَا يُقْبَلُ مِنْهُمْ قَوْلُهُمْ، وَأَمَّا مَنْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَى غَيْرِهِ وَأَظْهَرَ ذَلِكَ، فَإِنَّهُ يُسْتَتَابُ، فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ، وَذَلِكَ لَوْ أَنَّ قَوْمًا كَانُوا عَلَى ذَلِكَ، رَأَيْتُ أَنْ يُدْعَوْا إِلَى الْإِسْلَامِ وَيُسْتَتَابُوا، فَإِنْ تَابُوا قُبِلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ، وَإِنْ لَمْ يَتُوبُوا قُتِلُوا، وَلَمْ يَعْنِ بِذَلِكَ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ، مَنْ خَرَجَ مِنَ الْيَهُودِيَّةِ إِلَى النَّصْرَانِيَّةِ وَلَا مِنَ النَّصْرَانِيَّةِ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا مَنْ يُغَيِّرُ دِينَهُ مِنْ أَهْلِ الْأَدْيَانِ كُلِّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ، فَمَنْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَى غَيْرِهِ وَأَظْهَرَ ذَلِكَ، فَذَلِكَ الَّذِي عُنِيَ بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”جو شخص اپنا دین بدل ڈالے (یعنی دینِ اسلام چھوڑ کر اور دین اختیار کرے) تو اس کی گردن مارو۔“ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا: ”جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اس کی گردن مارو۔“ ہمارے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں: جو مسلمان اسلام سے باہر ہوجائیں، جیسے زنادقہ یا اُن کی مانند، تو جب مسلمان اُن پر غلبہ پائیں تو اُن کا قتل کر دیں، یہ بھی ضروری نہیں کہ پہلے ان سے توبہ کرنے کو کہیں، کیونکہ ان کی توبہ کا اعتبار نہیں ہو سکتا، وہ کفر کو اپنے دل میں رکھتے ہیں اور ظاہر میں اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں، لیکن اگر مسلمان شخص (کسی شبہے کی وجہ سے) اعلانیہ دینِ اسلام سے پھر جائے تو اس سے توبہ کرائیں (اور جو شبہہ ہوا ہو اس کو دور کریں)، اگر توبہ کرے تو بہتر، ورنہ قتل کیا جائے، اور جو کافر ایک کفر کے دین کو چھوڑ کر دوسرا کفر کا دین اختیار کرے، مثلاً پہلے یہودی تھا پھر نصرانی ہو جائے تو اس کو قتل نہ کریں گے، بلکہ جو دینِ اسلام کو چھوڑ کر اور کوئی دین اختیار کرے گا، اسی کے لیے یہ سزا ہے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3017، 6922، والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 4064، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4351، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1458، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2535، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1871، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 15»
وحدثني وحدثني مالك، عن عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن عبد القاري ، عن ابيه ، انه قال: قدم على عمر بن الخطاب رجل من قبل ابي موسى الاشعري، فساله عن الناس، فاخبره، ثم قال له عمر:" هل كان فيكم من مغربة خبر؟" فقال: نعم، رجل كفر بعد إسلامه". قال: فما فعلتم به؟ قال: قربناه فضربنا عنقه. فقال عمر : " افلا حبستموه ثلاثا واطعمتموه كل يوم رغيفا واستتبتموه لعله يتوب ويراجع امر الله". ثم قال عمر:" اللهم إني لم احضر، ولم آمر، ولم ارض إذ بلغني" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَجُلٌ مِنْ قِبَلِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، فَسَأَلَهُ عَنِ النَّاسِ، فَأَخْبَرَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ عُمَرُ:" هَلْ كَانَ فِيكُمْ مِنْ مُغَرِّبَةِ خَبَرٍ؟" فَقَالَ: نَعَمْ، رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ". قَالَ: فَمَا فَعَلْتُمْ بِهِ؟ قَالَ: قَرَّبْنَاهُ فَضَرَبْنَا عُنُقَهُ. فَقَالَ عُمَرُ : " أَفَلَا حَبَسْتُمُوهُ ثَلَاثًا وَأَطْعَمْتُمُوهُ كُلَّ يَوْمٍ رَغِيفًا وَاسْتَتَبْتُمُوهُ لَعَلَّهُ يَتُوبُ وَيُرَاجِعُ أَمْرَ اللَّهِ". ثُمَّ قَالَ عُمَرُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ أَحْضُرْ، وَلَمْ آمُرْ، وَلَمْ أَرْضَ إِذْ بَلَغَنِي"
حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا، سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس سے (یعنی یمن کی طرف سے)، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہاں کے لوگوں کا حال پوچھا، اس نے بیان کیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم کو کوئی نادر چیز معلوم ہے؟ وہ شخص بولا: ہاں، ایک شخص کافر ہو گیا تھا بعد اسلام کے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ وہ شخص بولا: ہم نے اسے پکڑا اور اس کی گردن ماری۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے اس کو تین دن تک قید کیا ہوتا اور ہر روز روٹی دی ہوتی، پھر توبہ کروائی ہوتی تو شاید وہ توبہ کرتا، اور پھر اللہ کا حکم مان لیتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا اللہ! میں اس وقت وہاں موجود نہ تھا، نہ میں نے حکم کیا، نہ میں خوش ہوا جب کہ مجھے معلوم ہوا۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16988، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 5032، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2585، 2586، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18695، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 29588، 33424، 34521، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 5107، 5108، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 16»