حدثني مالك، عن ابن شهاب ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه ، انه قال: جاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني عام حجة الوداع من وجع اشتد بي، فقلت: يا رسول الله، قد بلغ بي من الوجع ما ترى، وانا ذو مال ولا يرثني إلا ابنة لي، افاتصدق بثلثي مالي؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا". فقلت: فالشطر؟ قال:" لا". ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الثلث، والثلث كثير، إنك ان تذر ورثتك اغنياء، خير من ان تذرهم عالة يتكففون الناس، وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا اجرت حتى ما تجعل في في امراتك". قال: فقلت: يا رسول الله، ااخلف بعد اصحابي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنك لن تخلف فتعمل عملا صالحا، إلا ازددت به درجة ورفعة، ولعلك ان تخلف حتى ينتفع بك اقوام ويضر بك آخرون. اللهم امض لاصحابي هجرتهم، ولا تردهم على اعقابهم. لكن البائس سعد بن خولة يرثي له رسول الله صلى الله عليه وسلم ان مات بمكة" . حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ اشْتَدَّ بِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ بَلَغَ بِي مِنَ الْوَجَعِ مَا تَرَى، وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا". فَقُلْتُ: فَالشَّطْرُ؟ قَالَ:" لَا". ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ". قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَأُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا، إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ. اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ. لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ" .
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو آئے (یعنی بیمار پرسی کے لیے) حجة الوداع کے سال، میں اور میرا مرض شدید تھا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیماری کا حال تو آپ دیکھتے ہیں، اور میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے، کیا میں دو تہائی مال اللہ واسطے دے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے کہا: آدھا مال دے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ پھر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تہائی مال للہ دے دے، اور تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ فقیر بھیک منگا چھوڑ جائے، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، اور تو جو چیز صرف کرے گا اللہ کی رضامندی کے واسطے تجھ کو اس کا ثواب ملے گا، یہاں تک کہ تو جو اپنی بی بی کے منہ میں دیتا ہے اس کا بھی ثواب ملے گا۔“ پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جاؤں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو پیچھے رہ جائے گا اور نیک کام کرے گا، تیرا درجہ بلند ہوگا، اور شاید تو زندہ رہے (مکہ میں نہ مرے)، یہاں تک کہ نفع دے اللہ جل جلالہُ تیرے سبب سے ایک قوم کو اور نقصان دے ایک قوم کو، اے پروردگار! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کردے، اور مت پھیر دے ان کو اس ہجرت سے ان کی ایڑیوں پر۔“ لیکن مصیبت زدہ سیدنا سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ ہیں، جن کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رنج کرتے تھے اس وجہ سے کہ وہ مکہ میں مر گئے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 56، 1295، 2742، 2744، 3936، 4409، 5354، 5659، 5668، 6373، 6733، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1628، 1748، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2355، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4249، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1271، 2611، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3656، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6284، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2740، 2864، 3104، والترمذي فى «جامعه» برقم: 975، 2116، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3238، 3239، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2708، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 330، 331، 332، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6665،، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1457، والحميدي فى «مسنده» برقم: 66، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 696، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 4»
قال يحيى: سمعت مالكا، يقول في الرجل يوصي بثلث ماله لرجل، ويقول: غلامي يخدم فلانا ما عاش، ثم هو حر فينظر في ذلك، فيوجد العبد ثلث مال الميت، قال: فإن خدمة العبد تقوم، ثم يتحاصان، يحاص الذي اوصي له بالثلث بثلثه، ويحاص الذي اوصي له بخدمة العبد بما قوم له من خدمة العبد، فياخذ كل واحد منهما من خدمة العبد او من إجارته إن كانت له إجارة بقدر حصته، فإذا مات الذي جعلت له خدمة العبد ما عاش عتق العبد. قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ فِي الرَّجُلِ يُوصِي بِثُلُثِ مَالِهِ لِرَجُلٍ، وَيَقُولُ: غُلَامِي يَخْدُمُ فُلَانًا مَا عَاشَ، ثُمَّ هُوَ حُرٌّ فَيُنْظَرُ فِي ذَلِكَ، فَيُوجَدُ الْعَبْدُ ثُلُثَ مَالِ الْمَيِّتِ، قَالَ: فَإِنَّ خِدْمَةَ الْعَبْدِ تُقَوَّمُ، ثُمَّ يَتَحَاصَّانِ، يُحَاصُّ الَّذِي أُوصِيَ لَهُ بِالثُّلُثِ بِثُلُثِهِ، وَيُحَاصُّ الَّذِي أُوصِيَ لَهُ بِخِدْمَةِ الْعَبْدِ بِمَا قُوِّمَ لَهُ مِنْ خِدْمَةِ الْعَبْدِ، فَيَأْخُذُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ خِدْمَةِ الْعَبْدِ أَوْ مِنْ إِجَارَتِهِ إِنْ كَانَتْ لَهُ إِجَارَةٌ بِقَدْرِ حِصَّتِهِ، فَإِذَا مَاتَ الَّذِي جُعِلَتْ لَهُ خِدْمَةُ الْعَبْدِ مَا عَاشَ عَتَقَ الْعَبْدُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر کوئی وصیت کرے تہائی مال کی ایک شخص کو، اور کہے غلام میرا فلاں شخص کی خدمت کرے جب تک وہ شخص زندہ رہے، پھر آزاد ہے، بعد اس کے اس غلام کی قیمت تہائی مال نکلے تو غلام کی خدمت کی قیمت لگادیں گے، اور اس غلام میں حصّہ کرلیں گے، جس کو تہائی مال کی وصیت کی ہے اس کا حصّہ ایک تہائی ہوگا، اور جس کو خدمت کی وصیت کی ہے اس کا حصّہ خدمت کے موافق ہوگا، بعد اس کے دونوں شخص کی خدمت یا کمائی میں سے اپنا حصّہ لیا کریں گے۔ جب وہ شخص مرجائے گا جس کے واسطے خدمت کی تھی تو غلام آزاد ہوجائے گا۔
قال: وسمعت مالكا، يقول في الذي يوصي في ثلثه، فيقول لفلان كذا وكذا ولفلان كذا وكذا يسمي مالا من ماله، فيقول ورثته: قد زاد على ثلثه: فإن الورثة يخيرون بين ان يعطوا اهل الوصايا وصاياهم وياخذوا جميع مال الميت، وبين ان يقسموا لاهل الوصايا ثلث مال الميت فيسلموا إليهم ثلثه، فتكون حقوقهم فيه إن ارادوا بالغا ما بلغقَالَ: وَسَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ فِي الَّذِي يُوصِي فِي ثُلُثِهِ، فَيَقُولُ لِفُلَانٍ كَذَا وَكَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا وَكَذَا يُسَمِّي مَالًا مِنْ مَالِهِ، فَيَقُولُ وَرَثَتُهُ: قَدْ زَادَ عَلَى ثُلُثِهِ: فَإِنَّ الْوَرَثَةَ يُخَيَّرُونَ بَيْنَ أَنْ يُعْطُوا أَهْلَ الْوَصَايَا وَصَايَاهُمْ وَيَأْخُذُوا جَمِيعَ مَالِ الْمَيِّتِ، وَبَيْنَ أَنْ يَقْسِمُوا لِأَهْلِ الْوَصَايَا ثُلُثَ مَالِ الْمَيِّتِ فَيُسَلِّمُوا إِلَيْهِمْ ثُلُثَهُ، فَتَكُونُ حُقُوقُهُمْ فِيهِ إِنْ أَرَادُوا بَالِغًا مَا بَلَغَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص وصیت کرے کئی آدمیوں کے لیے، پھر اس کے وارث یہ دعویٰ کریں کہ وصیت تہائی سے زیادہ ہے، تو وارثوں کو اختیار ہوگا، چاہے ہر ایک موصی لہُ کو اس کی وصیت ادا کریں اور میّت کا پورا ترکہ آپ لے لیں، یا تہائی مال موصی لہُ جتنے ہوں ان کے حوالہ کردیں، اور اپنے حصّوں کے موافق اس کو تقسیم کرلیں گے۔