مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
جنت میں جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کے دیدار کی اجازت
حدیث نمبر: 5647
Save to word اعراب
وعن سعيد بن المسيب انه لقي ابا هريرة فقال ابو هريرة: اسال الله ان يجمع بيني وبينك في سوق الجنة. فقال سعيد: افيها سوق؟ قال: نعم اخبرني رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن اهل الجنة إذا دخلوها نزلوا فيها بفضل اعمالهم ثم يؤذن لهم في مقدار يوم الجمعة من ايام الدنيا فيزورون ربهم ويبرز لهم عرشه ويتبدى لهم في روضة من رياض الجنة فيوضع لهم منابر من نور ومنابرمن لؤلؤ ومنابر من ياقوت ومنابر من زبرجد ومنابر من ذهب ومنابر من فضة ويجلس ادناهم-وما فيهم دني-على كثبان المسك والكافور ما يرون ان اصحاب الكراسي بافضل منهم مجلسا» . قال ابو هريرة: قلت: يا رسول الله وهل نرى ربنا؟ قال: «نعم هل تتمارون في رؤية الشمس والقمر ليلة البدر؟» قلنا: لا. قال: كذلك لا تتمارون في رؤية ربكم ولا يبقى في ذلك المجلس رجل إلا حاضره الله محاضرة حتى يقول للرجل منهم: يا فلان ابن فلان اتذكر يوم قلت كذا وكذا؟ فيذكره ببعض غدارته في الدنيا. فيقول: يا رب افلم تغفر لي؟ فيقول: بلى فبسعة مغفرتي بلغت منزلتك هذه. فبينا هم على ذلك غشيتهم سحابة من فوقهم فامطرت عليهم طيبا لم يجدوا مثل ريحه شيئا قط ويقول ربنا: قوموا إلى ما اعددت لكم من الكرامة فخذوا ما اشتهيتم فناتي سوقا قد حفت به الملائكة فيها ما لم تنظر العيون إلى مثله ولم تسمع الآذان ولم يخطر على القلوب فيحمل لنا ما اشتهينا ليس يباع فيها ولا يشترى وفي ذلك السوق يلقى اهل الجنة بعضهم بعضا. قال: فيقبل الرجل ذو المنزلة المرتفعة فيلقى من هو دونه-وما فيهم دني-فيروعه ما يرى عليه من اللباس فيما ينقضي آخر حديثه حتى يتخيل عليه ما هو احسن منه وذلك انه لا ينبغي لاحد ان يحزن فيها ثم ننصرف إلى منازلنا فيتلقانا ازواجنا فيقلن: مرحبا واهلا لقد جئت وإن بك من الجمال افضل مما فارقتنا عليه فيقول: إنا جالسنا اليوم ربنا الجبار ويحقنا ان ننقلب بمثل ما انقلبنا. رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث غريب وَعَن سعيد بن الْمسيب أَنه لقيَ أَبَا هريرةَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ فِي سُوقِ الْجَنَّةِ. فَقَالَ سَعِيدٌ: أَفِيهَا سُوقٌ؟ قَالَ: نَعَمْ أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوهَا نَزَلُوا فِيهَا بِفَضْلِ أَعْمَالِهِمْ ثُمَّ يُؤْذَنُ لَهُمْ فِي مِقْدَارِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا فَيَزُورُونَ رَبَّهُمْ وَيَبْرُزُ لَهُمْ عَرْشُهُ وَيَتَبَدَّى لَهُم فِي روضةٍ من رياضِ الجنَّة فَيُوضَع لَهُم مَنَابِر من نور ومنابرمن لُؤْلُؤٍ وَمَنَابِرُ مِنْ يَاقُوتٍ وَمَنَابِرُ مِنْ زَبَرْجَدٍ وَمَنَابِرُ مِنْ ذَهَبٍ وَمَنَابِرُ مِنْ فِضَّةٍ وَيَجْلِسُ أَدْنَاهُم-وَمَا فيهم دنيٌّ-عَلَى كُثْبَانِ الْمِسْكِ وَالْكَافُورِ مَا يَرَوْنَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَرَاسِيِّ بِأَفْضَلَ مِنْهُمْ مَجْلِسًا» . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ نَرَى رَبَّنَا؟ قَالَ: «نَعَمْ هَلْ تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟» قُلْنَا: لَا. قَالَ: كَذَلِكَ لَا تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ وَلَا يَبْقَى فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ رَجُلٌ إِلَّا حَاضَرَهُ اللَّهُ مُحَاضَرَةً حَتَّى يَقُولَ لِلرَّجُلِ مِنْهُمْ: يَا فلَان ابْن فلَان أَتَذكر يَوْم قلت كَذَا وَكَذَا؟ فيذكِّره بِبَعْض غدارته فِي الدُّنْيَا. فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَفَلَمْ تَغْفِرْ لِي؟ فَيَقُولُ: بَلَى فَبِسِعَةِ مَغْفِرَتِي بَلَغْتَ مَنْزِلَتَكَ هَذِهِ. فَبَيْنَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ غَشِيتْهُمْ سَحَابَةٌ مِنْ فَوْقِهِمْ فَأَمْطَرَتْ عَلَيْهِمْ طِيبًا لَمْ يَجِدُوا مِثْلَ رِيحِهِ شَيْئًا قَطُّ وَيَقُولُ رَبُّنَا: قُومُوا إِلَى مَا أَعْدَدْتُ لَكُمْ مِنَ الْكَرَامَةِ فَخُذُوا مَا اشْتَهَيْتُمْ فَنَأْتِي سُوقًا قَدْ حَفَّتْ بِهِ الْمَلَائِكَةُ فِيهَا مَا لَمْ تَنْظُرِ الْعُيُونُ إِلَى مِثْلِهِ وَلَمْ تَسْمَعِ الْآذَانُ وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَى الْقُلُوبِ فَيُحْمَلُ لَنَا مَا اشْتَهَيْنَا لَيْسَ يُبَاعُ فِيهَا وَلَا يُشْتَرَى وَفِي ذَلِكَ السُّوقِ يَلْقَى أَهْلُ الْجَنَّةِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا. قَالَ: فَيُقْبِلُ الرَّجُلُ ذُو الْمَنْزِلَةِ الْمُرْتَفِعَةِ فَيَلْقَى مَنْ هُوَ دُونَهُ-وَمَا فيهم دنيٌّ-فيروعُه مَا يرى عَلَيْهِ من اللباسِ فِيمَا يَنْقَضِي آخِرُ حَدِيثِهِ حَتَّى يَتَخَيَّلَ عَلَيْهِ مَا هُوَ أحسن مِنْهُ وَذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَحْزَنَ فِيهَا ثُمَّ نَنْصَرِفُ إِلَى مَنَازِلِنَا فَيَتَلَقَّانَا أَزْوَاجُنَا فَيَقُلْنَ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا لَقَدْ جِئْتَ وَإِنَّ بِكَ مِنَ الْجَمَالِ أَفْضَلَ مِمَّا فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ فَيَقُولُ: إِنَّا جَالَسْنَا الْيَوْمَ رَبَّنَا الْجَبَّارَ وَيَحِقُّنَا أَنْ نَنْقَلِبَ بِمِثْلِ مَا انْقَلَبْنَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيث غَرِيب
سعید بن مسیّب ؒ سےروایت ہے کہ وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ (بازار مدینہ کی طرح) مجھ کو اور آپ کو جنت کے بازار میں اکٹھا فرمائے، سعید ؒ نے فرمایا: کیا وہاں بازار ہو گا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: جب جنت والے، اس (جنت) میں داخل ہو جائیں گے تو وہ اپنے اعمال کے حساب سے وہاں قیام کریں گے، پھر دنیا کے ایام سے جمعہ کے دن کی مقدار کے مطابق انہیں اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے رب کی زیارت کریں گے اور وہ ان کے لیے اپنا عرش ظاہر فرمائے گا، وہ (ان کا رب) ان کی خاطر جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچے میں تجلی فرمائے گا، ان کے لیے نور کے موتیوں کے، یاقوت کے، زمرد کے، سونے کے اور چاندی کے منبر لگائے جائیں گے، ان میں سے ادنی ٰ درجے کا شخص، اور ان میں سے کوئی بھی ادنی ٰ درجے کا نہیں ہو گا، کستوری اور کافور کے ٹیلوں پر ہو گا، اور وہ یہ محسوس نہیں کریں گے کہ کرسیوں والے نشست و برخواست میں ان سے افضل ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، کیا تم سورج دیکھنے میں اور چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں شک کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے رب کو دیکھنے میں شک نہیں کرو گے، اور اس مجلس میں موجود ہر شخص سے اللہ (کسی ترجمان کے بغیر) مخاطب ہو گا، حتی کہ وہ ان میں سے ایک آدمی سے کہے گا: اے فلاں بن فلاں! کیا تجھے فلاں دن یاد ہے تو نے یہ اور یہ کہا تھا، وہ دنیا میں اس کی بعض نافرمانیاں اور عہد شکنیاں اسے یاد کرائے گا تو وہ عرض کرے گا: رب جی! کیا تو نے مجھے بخش نہیں دیا تھا؟ وہ فرمائے گا، کیوں نہیں، ہاں میری مغفرت کی وسعت کی بدولت ہی تو اپنے اس مقام کو پہنچا ہے، وہ اسی اثنا میں ہوں گے تو بادل کا ایک ٹکڑا اوپر سے انہیں ڈھانپ لے گا، وہ ان پر خوشگوار بارش برسائے گا، اور انہوں نے اس جیسی خوشبو کسی چیز میں نہیں پائی ہو گی، ہمارا رب فرمائے گا: میں نے تمہارے اعزاز و اکرام کی خاطر جو تیار کر رکھا ہے، تم اس کا قصد کرو اور (وہاں سے) جو تم چاہو، وہ لے لو، ہم ایک بازار میں جائیں گے، اسے فرشتوں نے گھیر رکھا ہو گا، اس میں ایسی ایسی چیزیں ہوں گی جسے آنکھوں نے دیکھا ہو گا نہ کانوں نے سنا ہو گا اور نہ ہی دلوں میں اس کا خیال آیا ہو گا، ہم جو چاہیں گے وہ ہمارے لیے لایا جائے گا، وہاں خرید و فٖروخت نہیں ہو گی، اور اس بازار میں، جنت والے ایک دوسرے کو ملیں گے۔ فرمایا: بلند منزلوں والا آدمی توجہ کرے گا تو وہ اپنے سے کم تر سے، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی کم تر نہیں، ملاقات کرے گا تو وہ اس کے لباس کو دیکھے گا تو وہ اسے تعجب میں ڈال دے گا، اس کی بات ختم نہیں ہو گی حتی کہ اسے خیال آئے گا کہ اس پر جو (لباس) ہے وہ اس (لباس) سے بہتر ہے، اور یہ اس لیے ہے کہ کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس (جنت) میں غمگین ہو، پھر ہم اپنے گھروں کو واپس آئیں گے تو ہماری ازواج ہم سے ملاقات کریں گی تو وہ کہیں گی: خوش آمدید، جب تم ہمارے پاس سے گئے تھے، تو اب جبکہ تم ہمارے پاس آئے ہو، اس سے زیادہ خوبصورت ہو، ہم کہیں گے: آج ہم نے اپنے رب جبار کی ہم نشینی اختیار کی تو ہم پر لازم تھا کہ ہم اسی حالت میں واپس آتے جس حالت میں ہم واپس آئے ہیں۔ ترمذی، ابن ماجہ، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2549) و ابن ماجه (4336)
٭ ھشام بن عمار صدوق اختلط، و لم يثبت بأنه حدّث بھذا الحديث قبل اختلاطه.»

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.