مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق
سب سے آخر میں جنت میں آنے والا
حدیث نمبر: 5582
Save to word اعراب
وعن ابن مسعود ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: آخر من يدخل الجنة رجل يمشي مرة ويكبو مرة وتسفعه النار مرة فإذا جاؤوها التفت إليها فقال: تبارك الذي نجاني منك لقد اعطاني الله شيئا ما اعطاه احدا من الاولين والآخرين فترفع له شجرة فيقول: اي رب ادنني من هذه الشجرة فلاستظل بظلها واشرب من مائها فيقول الله: يا ابن آدم لعلي إن اعطيتكها سالتني غيرها؟ فيقول: لا يا رب ويعاهده ان لا يساله غيرها وربه يعذره لانه يرى ما لا صبر له عليه فيدنيه منها فيستظل بظلها ويشرب من مائها ثم ترفع له شجرة هي احسن من الاولى فيقول: اي رب ادنني من هذه الشجرة لاشرب من مائها واستظل بظلها لا اسالك غيرها. فيقول: يا ابن آدم الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟ فيقول: لعلي إن ادنيتك منها تسالني غيرها؟ فيعاهده ان لا يساله غيرها وربه يعذره لانه يرى ما لا صبر له عليه فيدنيه منها فيستظل بظلها ويشرب من مائها ثم ترفع له شجرة عند باب الجنة هي احسن من الاوليين فيقول: اي رب ادنني من هذه فلاستظل بظلها واشرب من مائها لا اسالك غيرها. فيقول: يا ابن آدم الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟ قال: بلى يا رب هذه لا اسالك غيرها وربه يعذره لانه يرى ما لا صبر له عليه فيدنيه منها فإذا ادناه منها سمع اصوات اهل الجنة فيقول: اي رب ادخلنيها فيقول: يا ابن آدم ما يصريني منك؟ ايرضيك ان اعطيك الدنيا ومثلها معها. قال: اي رب اتستهزئ مني وانت رب العالمين؟ فضحك ابن مسعود فقال: الا تسالوني مم اضحك؟ فقالوا: مم تضحك؟ فقال: هكذا ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقالوا: مم تضحك يا رسول الله؟ قال: من ضحك رب العالمين؟ فيقول: إني لا استهزئ منك ولكني على ما اشاء قدير. رواه مسلم وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آخِرُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ يَمْشِي مَرَّةً وَيَكْبُو مَرَّةً وَتَسْفَعُهُ النارُ مرّة فإِذا جاؤوها الْتَفَتَ إِلَيْهَا فَقَالَ: تَبَارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ شَيْئًا مَا أَعْطَاهُ أَحَدًا مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَلْأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا فَيَقُولُ اللَّهُ: يَا ابْنَ آدَمَ لَعَلِّي إِنْ أَعْطَيْتُكَهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا؟ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا وَرَبُّهُ يَعْذُرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَى فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ لِأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا وَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا. فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟ فَيَقُولُ: لَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا؟ فَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا وَرَبُّهُ يَعْذُرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَيَيْنِ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ فَلِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا. فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟ قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا وَرَبُّهُ يَعْذُرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْهَا سَمِعَ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فيقولُ: أَي رَبِّ أَدْخِلْنِيهَا فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ مَا يصريني مِنْك؟ أيرضيك أَن أُعْطِيك الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا. قَالَ: أَيْ رَبِّ أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَضَحِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ: أَلا تسألونيّ ممَّ أضْحك؟ فَقَالُوا: مِم تضحك؟ فَقَالَ: هَكَذَا ضَحِكَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: من ضحك رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ مِنْكَ وَلَكِنِّي على مَا أَشَاء قدير. رَوَاهُ مُسلم
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا آدمی وہ ہو گا جو ایک بار چلے گا اور ایک بار منہ کے بل گرے گا اور ایک بار آگ اسے جھلسے گی، جب وہ اس (آگ) سے گزر جائے گا تو وہ اس کی طرف مڑ کر دیکھ کر کہے گا، بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے بچا لیا اور اللہ نے مجھے وہ چیز عطا فرما دی جو اس نے اگلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی، اسے ایک درخت دکھایا جائے گا تو وہ عرض کرے گا: رب جی! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تا کہ میں اس کے سائے سے سایہ حاصل کر سکوں، اور اس کے (پاس چشمے کے پانی سے) پانی پی سکوں، اللہ فرمائے گا: ابن آدم! شاید کہ میں وہ تجھے عطا کر دوں تو پھر تم اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ کرو گے، وہ عرض کرے گا: رب جی! نہیں، وہ اس سے معاہدہ کرے گا کہ وہ اس سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا، اور اس کا رب (سوال کرنے پر) اسے معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرے گا جنہیں دیکھ کر وہ صبر نہیں کر سکے گا، وہ اس کو اس (درخت) کے قریب کر دے گا تو وہ اس کے سائے سے سایہ حاصل کرے گا اور اس کے (چشمے) سے پانی پیئے گا، پھر اسے ایک اور درخت دکھایا جائے گا جو پہلے سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہو گا، وہ عرض کرے گا: رب جی! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تا کہ میں اس کے (چشمے کے) پانی سے پانی پی سکوں اور اس کے سایہ سے سایہ حاصل کر سکوں، اور میں اس کے علاوہ تجھ سے اور کوئی چیز نہیں مانگوں گا، وہ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے علاوہ مجھ سے کوئی اور چیز نہیں مانگے گا، اور وہ فرمائے گا: ہو سکتا ہے کہ میں تجھے اس کے قریب کر دوں تو پھر تو مجھ سے اس کے علاوہ کوئی اور چیز مانگ لے، وہ اس سے، اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہ مانگنے کا وعدہ کر لے گا، جبکہ اس کا رب اسے (دوبارہ سوال کرنے پر) معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ ایسی نعمتوں کا مشاہدہ کرے گا جنہیں دیکھ کر اس کا پیمانہ صبر لبریز ہو جائے گا، وہ اس کو اس کے قریب کر دے گا تو وہ اس کے سائے سے سایہ حاصل کرے گا، اور اس کے (چشمے کے) پانی سے پانی پیئے گا۔ پھر جنت کے دروازے پر اسے ایک اور درخت دکھایا جائے گا جو سابقہ دونوں درختوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو گا، یہ عرض کرے گا: رب جی! مجھے اس (درخت) کے قریب کر دے تا کہ میں اس کے سائے سے سایہ حاصل کر سکوں اور اس کے (چشمے کے) پانی سے پانی پیوں، پھر میں اس کے علاوہ تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا، وہ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے معاہدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے علاوہ مجھ سے کوئی اور چیز نہیں مانگے گا، وہ عرض کرے گا: رب جی! بالکل ٹھیک ہے، بس یہ پورا فرما دے، میں اس کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا، اس کا رب اسے معذور سمجھے گا، پھر وہ ایسی نعمتوں کا مشاہدہ کرے گا جنہیں دیکھ کر وہ صبر نہیں کر سکے گا، وہ اس کے قریب کر دے گا، جب وہ اسے اس کے قریب کر دے گا تو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا تو عرض کرے گا، رب جی! مجھے اس میں داخل فرما دے، وہ فرمائے گا: ابن آدم! کون سی چیز (چاہنے کے بعد) تو مجھ سے سوال کرنا ترک کرے گا؟ کیا تو راضی ہو جائے گا کہ میں دنیا کے برابر اور اس کی مثل مزید تجھے عطا کر دوں؟ وہ عرض کرے گا: رب جی! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہو جبکہ آپ رب العالمین ہو؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس دیے، اور فرمایا: کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں کس وجہ سے ہنس رہا ہوں؟ انہوں نے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اسی طرح رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ہنسے تھے، اس پر صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا تھا، اللہ کے رسول! آپ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رب العالمین کے ہنسنے کی وجہ سے جب اس نے کہا تھا، کیا تو مجھ سے مذاق کرتا ہے جبکہ تو رب العالمین ہے؟ وہ فرمائے گا: میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا بلکہ میں جو چاہوں اس کے کرنے پر قادر ہوں۔ رواہ مسلم۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه مسلم (310/ 187)»

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.