عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه سئل عن الثمر المعلق فقال: «من اصاب منه من ذي حاجة غير متخذ خبنة فلا شيء عليه ومن خرج بشيء منه فعليه غرامة مثليه والعقوبة ومن سرق منه شيئا بعد ان يؤويه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع» وذكر في ضالة الإبل والغنم كما ذكر غيره قال: وسئل عن اللقطة فقال: «ما كان منها في الطريق الميتاء والقرية الجامعة فعرفها سنة فإن جاء صاحبها فادفعها إليه وإن لم يات فهو لك وما كان في الخراب العادي ففيه وفي الركاز الخمس» . رواه النسائي وروى ابو داود عنه من قوله: وسئل عن اللقطة إلى آخره عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ فَقَالَ: «مَنْ أَصَابَ مِنْهُ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ فَعَلَيْهِ غَرَامَةُ مِثْلَيْهِ وَالْعُقُوبَةُ وَمَنْ سَرَقَ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ يُؤْوِيَهُ الْجَرِينَ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ» وَذَكَرَ فِي ضَالَّة الْإِبِل وَالْغنم كَمَا ذكر غَيْرُهُ قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ فَقَالَ: «مَا كَانَ مِنْهَا فِي الطَّرِيقِ الْمِيتَاءِ وَالْقَرْيَةِ الْجَامِعَةِ فَعَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَأْتِ فَهُوَ لَكَ وَمَا كَانَ فِي الْخَرَابِ الْعَادِيِّ فَفِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ» . رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ عَنْهُ مِنْ قَوْله: وَسُئِلَ عَن اللّقطَة إِلَى آخِره
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ سے درخت پر لٹکے ہوئے پھل کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی ضرورت مند شخص، جو کہ کپڑے میں ڈال کر لے جانے والا نہ ہو، وہاں سے کھا لے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو شخص وہاں سے کچھ ساتھ لے آئے تو اس پر دو گناہ تاوان اور سزا ہے، اور جو شخص جنس کے ڈھیر لگ جانے کے بعد وہاں سے ڈھال کی قیمت کے برابر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ “ اور گم شدہ اونٹ اور گم شدہ بکری کے بارے میں بھی دوسری چیزوں کی طرح ہی ذکر کیا گیا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں، آپ سے لقطہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ شارع عام اور بڑی بستی سے ملے تو پھر تو ایک سال تک اس کا اعلان کر، اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کے حوالے کر، اور اگر کوئی مالک نہ آئے تو پھر وہ تیری ہے۔ اور اگر وہ کسی بے آباد قدیم جگہ سے ملے تو پھر اس میں اور مدفون خزینے میں پانچواں حصہ ہے۔ “ نسائی۔ ابوداؤد ؒ نے بھی انہی سے روایت کیا ہے اور وہ حدیث: سُئِلَ عَنِ اللُّقْطَۃِ سے آخر تک مروی ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ النسائی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه النسائي (85/8 ح 4961) و أبو داود (1710)»