حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن حميد بن مالك بن خثيم انه قال: كنت جالسا مع ابي هريرة بارضه بالعقيق، فاتاه قوم من اهل المدينة على دواب، فنزلوا، قال حميد: فقال ابو هريرة: اذهب إلى امي وقل لها: إن ابنك يقرئك السلام ويقول: اطعمينا شيئا، قال: فوضعت ثلاثة اقراص من شعير، وشيئا من زيت وملح في صحفة، فوضعتها على راسي، فحملتها إليهم، فلما وضعته بين ايديهم، كبر ابو هريرة وقال: الحمد لله الذي اشبعنا من الخبز بعد ان لم يكن طعامنا إلا الاسودان: التمر والماء، فلم يصب القوم من الطعام شيئا، فلما انصرفوا قال: يا ابن اخي، احسن إلى غنمك، وامسح الرغام عنها، واطب مراحها، وصل في ناحيتها، فإنها من دواب الجنة، والذي نفسي بيده ليوشك ان ياتي على الناس زمان تكون الثلة من الغنم احب إلى صاحبها من دار مروان.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ مَالِكِ بْنِ خُثَيْمٍ أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ بِأَرْضِهِ بِالْعَقِيقِ، فَأَتَاهُ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ عَلَى دَوَابَّ، فَنَزَلُوا، قَالَ حُمَيْدٌ: فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: اذْهَبْ إِلَى أُمِّي وَقُلْ لَهَا: إِنَّ ابْنَكِ يُقْرِئُكِ السَّلاَمَ وَيَقُولُ: أَطْعِمِينَا شَيْئًا، قَالَ: فَوَضَعَتْ ثَلاَثَةَ أَقْرَاصٍ مِنْ شَعِيرٍ، وَشَيْئًا مِنْ زَيْتٍ وَمِلْحٍ فِي صَحْفَةٍ، فَوَضَعْتُهَا عَلَى رَأْسِي، فَحَمَلْتُهَا إِلَيْهِمْ، فَلَمَّا وَضَعْتُهُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، كَبَّرَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَشْبَعَنَا مِنَ الْخُبْزِ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ طَعَامُنَا إِلاَّ الأَسْوَدَانِ: التَّمْرُ وَالْمَاءُ، فَلَمْ يُصِبِ الْقَوْمُ مِنَ الطَّعَامِ شَيْئًا، فَلَمَّا انْصَرَفُوا قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، أَحْسِنْ إِلَى غَنَمِكَ، وَامْسَحْ الرُّغَامَ عَنْهَا، وَأَطِبْ مُرَاحَهَا، وَصَلِّ فِي نَاحِيَتِهَا، فَإِنَّهَا مِنْ دَوَابِّ الْجَنَّةِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ تَكُونُ الثُّلَّةُ مِنَ الْغَنَمِ أَحَبَّ إِلَى صَاحِبِهَا مِنْ دَارِ مَرْوَانَ.
حمید بن مالک رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں مقام عقیق پر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی زمین میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اہل مدینہ کے کچھ لوگ اپنی سواریوں پر آئے اور وہاں اترے۔ حمید کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: میری والدہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہنا: آپ کا بیٹا آپ کو سلام کہتا ہے، اور عرض کرتا ہے کہ ہمیں کچھ کھانے کے لیے دے دیں۔ حمید کہتے ہیں: انہوں نے ایک تھال میں جَو کی تین روٹیاں، زیتون کا تیل اور نمک رکھ دیا۔ میں اسے اپنے سر پر رکھ کر ان لوگوں کے پاس لے آیا۔ جب میں نے ان کے سامنے کھانا رکھا تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کی کبریائی بیان کی اور کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے ہمارا پیٹ روٹی سے بھرا، بعد اس کے کہ ہمارے پاس کھجور اور پانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ لوگوں کو گندم کا کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بھتیجے! بکریوں کو اچھے طریقے سے رکھو، اور ان کی مٹی وغیرہ جھاڑتے رہو، ان کے باڑے کو صاف رکھو، اور اس کے کونے میں نماز پڑھو کیونکہ یہ بکریاں جنت کے جانوروں میں سے ہیں۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ بکریوں کا ایک ریوڑ اس کے مالک کو مروان کے گھر سے زیادہ محبوب ہو گا۔
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد و جملة الصلاة فى مراح الغنم و مسح رغامها و أنها من دواب الجنة صحيح مرفوعًا: أخرجه مالك فى الموطأ: 933/2 و عبدالرزاق: 1600 - مختصرًا الصحيحة: 1128»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد و جملة الصلاة فى مراح الغنم و مسح رغامها و أنها من دواب الجنة صحيح مرفوعًا
حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا إسماعيل الازرق، عن ابي عمر، عن ابن الحنفية، عن علي رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”الشاة في البيت بركة، والشاتان بركتان، والثلاث بركات.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ الأَزْرَقُ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، عَنِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”الشَّاةُ فِي الْبَيْتِ بَرَكَةٌ، وَالشَّاتَانِ بَرَكَتَانِ، وَالثَّلاَثُ بَرَكَاتٌ.“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھر میں بکری رکھنا ایک برکت ہے، دو بکریاں رکھنا دو برکتیں ہیں اور تین بکریاں رکھنا تین برکتیں ہیں۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف جدا: الضعيفة: 3751 - أخرجه ابن أبى الدنيا فى إصلاح المال: 180 و العقيلي فى الضعفاء: 82/1»