حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا ابو هلال، قال: حدثنا الحسن، ان رجلا توفي وترك ابنا له ومولى له، فاوصى مولاه بابنه، فلم يالوه حتى ادرك وزوجه، فقال له: جهزني اطلب العلم، فجهزه، فاتى عالما فساله، فقال: إذا اردت ان تنطلق فقل لي اعلمك، فقال: حضر مني الخروج فعلمني، فقال: اتق الله واصبر، ولا تستعجل. قال الحسن: في هذا الخير كله، فجاء ولا يكاد ينساهن، إنما هن ثلاث، فلما جاء اهله نزل عن راحلته، فلما نزل الدار إذا هو برجل نائم متراخ عن المراة، وإذا امراته نائمة، قال: والله ما اريد ما انتظر بهذا؟ فرجع إلى راحلته، فلما اراد ان ياخذ السيف قال: اتق الله واصبر، ولا تستعجل. فرجع، فلما قام على راسه قال: ما انتظر بهذا شيئا، فرجع إلى راحلته، فلما اراد ان ياخذ سيفه ذكره، فرجع إليه، فلما قام على راسه استيقظ الرجل، فلما رآه وثب إليه فعانقه وقبله، وساءله قال: ما اصبت بعدي؟ قال: اصبت والله بعدك خيرا كثيرا، اصبت والله بعدك: اني مشيت الليلة بين السيف وبين راسك ثلاث مرار، فحجزني ما اصبت من العلم عن قتلك.حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، أَنَّ رَجُلاً تُوُفِّيَ وَتَرَكَ ابْنًا لَهُ وَمَوْلًى لَهُ، فَأَوْصَى مَوْلاَهُ بِابْنِهِ، فَلَمْ يَأْلُوهُ حَتَّى أَدْرَكَ وَزَوَّجَهُ، فَقَالَ لَهُ: جَهَّزْنِي أَطْلُبِ الْعِلْمَ، فَجَهَّزَهُ، فَأَتَى عَالِمًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْطَلِقَ فَقُلْ لِي أُعَلِّمْكَ، فَقَالَ: حَضَرَ مِنِّي الْخُرُوجُ فَعَلِّمْنِي، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَاصْبِرْ، وَلاَ تَسْتَعْجِلْ. قَالَ الْحَسَنُ: فِي هَذَا الْخَيْرُ كُلُّهُ، فَجَاءَ وَلاَ يَكَادُ يَنْسَاهُنَّ، إِنَّمَا هُنَّ ثَلاَثٌ، فَلَمَّا جَاءَ أَهْلَهُ نَزَلَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ الدَّارَ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ نَائِمٍ مُتَرَاخٍ عَنِ الْمَرْأَةِ، وَإِذَا امْرَأَتُهُ نَائِمَةٌ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أُرِيدُ مَا أَنْتَظِرُ بِهَذَا؟ فَرَجَعَ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَأْخُذَ السَّيْفَ قَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَاصْبِرْ، وَلاَ تَسْتَعْجِلْ. فَرَجَعَ، فَلَمَّا قَامَ عَلَى رَأْسِهِ قَالَ: مَا أَنْتَظِرُ بِهَذَا شَيْئًا، فَرَجَعَ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَأْخُذَ سَيْفَهُ ذَكَرَهُ، فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ عَلَى رَأْسِهِ اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَآهُ وَثَبَ إِلَيْهِ فَعَانَقَهُ وَقَبَّلَهُ، وَسَاءَلَهُ قَالَ: مَا أَصَبْتَ بَعْدِي؟ قَالَ: أَصَبْتُ وَاللَّهِ بَعْدَكَ خَيْرًا كَثِيرًا، أَصَبْتُ وَاللَّهِ بَعْدَكَ: أَنِّي مَشَيْتُ اللَّيْلَةَ بَيْنَ السَّيْفِ وَبَيْنَ رَأْسِكَ ثَلاَثَ مِرَارٍ، فَحَجَزَنِي مَا أَصَبْتُ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ قَتْلِكَ.
حضرت حسن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی فوت ہوا اور اپنے پیچھے ایک بیٹا اور غلام چھوڑا۔ اپنے غلام کو بیٹے کے بارے میں وصیت کی۔ چنانچہ غلام نے اس لڑکے کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، یہاں تک کہ وہ لڑکا جوان ہوا تو اس نے اس کی شادی کر دی۔ اس لڑکے نے غلام سے کہا: میرے لیے کچھ سامان تیار کریں تاکہ میں حصول علم کے لیے نکلوں۔ اس نے اسے تیار کر دیا، چنانچہ وہ ایک عالم کے پاس آیا اور اس سے سیکھتا رہا۔ اس نے کہا: جب تم جانے لگو تو مجھے بتانا میں تمہیں کچھ باتیں بتاؤں گا۔ اس نے کہا: میں جانا چاہتا ہوں، مجھے وہ باتیں سکھا دیں۔ اس عالم نے کہا: اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، صبر کرنا اور جلد بازی نہ کرنا۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں ہر قسم کی خیر آ گئی۔ وہ لڑکا جب واپس ہوا تو ان تینوں باتوں کو نہ بھولا۔ جب وہ اپنی بیوی کے پاس آیا، سواری سے اترا اور گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک مرد اس کی بیوی سے ذرا فاصلے پر سویا ہوا ہے، اور اس کی بیوی بھی سوئی ہوئی ہے۔ اس نے دل میں کہا: اللہ کی قسم میں اس حالت پر زیادہ انتظار کا ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ اپنی سواری کی طرف گیا۔ جب اس نے تلوار پکڑنے کا ارادہ کیا تو خود کو مخاطب کر کے کہا: اللہ سے ڈرو، صبر کرو اور جلد بازی سے کام نہ لو، پھر واپس آ گیا۔ جب وہ اس کے سرہانے کھڑا ہوا تو اس نے کہا: میں اس حالت میں بالکل انتظار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ دوبارہ اپنی سواری کے پاس گیا، لیکن جب اس نے تلوار پکڑنے کا ارادہ کیا تو اسے استاد کی وصیت یاد آ گئی۔ وہ پھر واپس گیا اور اس کے سر کے پاس کھڑا ہوا تو وہ آدمی جاگ گیا۔ جب اس نے اس لڑکے کو دیکھا تو فوراً اٹھا اور اس سے گلے ملا اور اسے بوسہ دیا اور اس سے پوچھا: میرے پاس سے جانے کے بعد تم کیسے رہے؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم تیرے پاس سے جانے کے بعد مجھے بہت زیادہ بھلائی حاصل ہوئی۔ آپ کے بعد جو کچھ میں نے حاصل کیا وہ یہ کہ آج رات میں تیرے سر اور تلوار کے درمیان تین دفعہ چلا، تاکہ تجھے قتل کروں لیکن جو علم میں نے حاصل کیا اس نے مجھے تیرے قتل سے روک دیا۔