جمعہ کا بیان जुमा के बारे में جو شخص خطبے میں بعد ثنا کے امابعد کہے (تو وہ سنت کے موافق کرتا ہے)۔ “ जो व्यक्ति ख़ुत्बे में अल्लाह की तारीफ़ के बाद “ अम्मा बाद ” « أمَّا بَعدُ » कहता है तो वह सुन्नत के अनुसार कहता है ”
سیدنا عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال یا کوئی چیز لائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی کہ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا وہ ناخوش ہو گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”امابعد! اللہ کی قسم میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں حالانکہ جس کو چھوڑ دیتا ہوں وہ میرے نزدیک اس سے کہ جس کو دیتا ہوں زیادہ پسند ہوتا ہے لیکن میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں بے چینی اور گھبراہٹ دیکھتا ہوں۔ (اور جنہیں میں نہیں دیتا ہوں) ان لوگوں کو میں اس سیر چشمی اور بھلائی کے حوالے کر دیتا ہوں جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے، انھیں لوگوں میں عمرو بن تغلب (رضی اللہ عنہ) بھی ہیں۔“ (عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) اللہ کی قسم! میں نہیں چاہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلمہ کے عوض مجھے سرخ اونٹ بھی ملیں۔
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کو نماز کے بعد کھڑے ہو گئے اور تشہد پڑھا اور اللہ کی حمد بیان کی جیسا کہ اس کے لائق ہے پھر فرمایا ”امابعد!۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (ایک روز) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور وہ آخری مجلس تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑی چادر اپنے شانوں پر ڈالے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک مٹیالے رنگ کی ایک پٹی سے باندھ لیا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! میرے قریب آ جاؤ۔“ چنانچہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امابعد! پس یہ قبیلہ انصار کم ہوتے جائیں گے اور دوسرے لوگ بڑھتے جائیں گے لہٰذا جو شخص امت میں سے کسی چیز کا مالک ہو اور وہ اختیار رکھتا ہو کہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر یا کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہو تو اس کو چاہیے کہ ان (یعنی انصار) میں سے نیکوکار کی (نیکی) کو قبول کرے اور ان میں خطاکار (کی خطا) سے تجاوز کرے۔“
|