علم کا بیان ज्ञान के बारे में علم (کی باتوں) کا لکھنا (بدعت نہیں ہے)۔ “ ज्ञान की बातें लिखना बिदअत नहीं है ”
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مکہ سے فیل (ہاتھیوں کے لشکر) کو یا قتل کو روک لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کو ان پر غالب کر دیا۔ آگاہ رہو مکہ (میں قتال کرنا) نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو وہ میرے لیے ایک گھڑی بھر دن میں حلال ہو گیا تھا، آگاہ رہو (اب) وہ اس وقت حرام ہے۔ اس کا کاٹنا نہ توڑا جائے اور اس کا درخت نہ کاٹا جائے اور اس کی گری ہوئی چیز سوائے اعلان کرنے والے کے کوئی نہ اٹھائے (یعنی جو اس کے اصل مالک کو ڈھونڈے اور یہ چیز اس کے حوالے کرے) اور جس کسی کا کوئی (عزیز) قتل کیا جائے تو اسے (ان) دو صورتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا اس کو دیت دلا دی جائے یا قصاص لیا جائے (قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالے کیا جائے)۔“ اتنے میں ایک شخص اہل یمن میں سے آ گیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! (یہ خطبہ) میرے لیے لکھ دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوفلاں کے لیے لکھ دو۔“ پھر قریش کے ایک شخص نے کہا کہ (یا رسول اللہ!) اذخر (گھاس) کے سوا (اور چیزوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائیے اور اذخر کی ممانعت نہ فرمائیے) اس لیے کہ ہم اس کو اپنے گھروں اور قبروں میں لگاتے ہیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ہاں) اذخر کے سوا (اور اشیاء کاٹنے کی ممانعت ہے)۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض سخت ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”میرے پاس لکھنے کی چیزیں لاؤ تاکہ میں تمہارے لیے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر تم گمراہ نہ ہو گے۔“ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض غالب ہے (طبیعت انتہائی ناساز ہے) اور چونکہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب موجود ہے تو وہی ہمیں کافی ہے۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اختلاف کیا یہاں تک کہ شور بہت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس سے اٹھ جاؤ اور میرے پاس تنازع (کھڑا) کرنے کا کیا کام؟“
|