علم کا بیان ज्ञान के बारे में ”المناولہ“ کے بارے میں اور اہل علم کا علم یا علم کی باتیں لکھ کر شہر والوں کو دے دینا۔ “ विद्वानों का ज्ञान या ज्ञान की बातें लिखकर शहर के लोगों को देना ”
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک خط ایک شخص کے ہاتھ بھیجا اور اسے حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے حاکم کو دیدے۔ (چنانچہ اس نے دے دیا) اور بحرین کے حاکم نے اس کو کسریٰ (شاہ ایران) تک پہنچا دیا۔ پھر جب (کسریٰ نے) اس کو پڑھا تو (اپنی بدبختی سے) اس کو چاک کر ڈالا۔ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) ان لوگوں کو بددعا دی کہ ”وہ (لوگ بھی) بالکل (اسی طرح) ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط (شاہ روم یا ایران) کو لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ سے یہ کہا گیا کہ وہ لوگ بے مہر کا خط نہیں پڑھتے، (یعنی اس کو وقعت نہیں دیتے) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں ”محمد رسول اللہ“ کندہ تھا۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے) گویا میں (اب بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں اس کی سفیدی کی طرف دیکھ رہا ہوں۔
سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) اس حالت میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (بغرض استفادہ) بیٹھے ہوئے تھے، تین اشخاص آئے تو (ان میں سے) دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گئے اور ایک چلا گیا (ابوواقد رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ وہ دونوں (کچھ دیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے رہے پھر ان میں سے ایک نے حلقہ میں گنجائش دیکھی تو وہ وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا سب کے پیچھے (جہاں مجلس ختم ہوتی تھی) بیٹھ گیا اور تیسرا تو واپس ہی چلا گیا۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وعظ سے) فراغت پائی تو (صحابہ رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر) فرمایا: کیا میں تمہیں تین آدمیوں کی حالت نہ بتاؤں کہ ان میں سے ایک نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور اللہ نے اس کو جگہ دی اور دوسرا شرمایا تو اللہ نے (بھی) اس سے حیاء کی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ نے (بھی) اس سے اعراض فرمایا۔
|