كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: علم اور فہم دین 19. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفِقْهِ عَلَى الْعِبَادَةِ باب: عبادت پر علم و فقہ کی فضیلت کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک فقیہ (عالم) ہزار عبادت کرنے والوں کے مقابلہ میں اکیلا شیطان پر حاوی اور بھاری ہے“۔
یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت سے صرف اسی سند جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (222) (تحفة الأشراف: 6395) (موضوع) (سند میں روح بن جناح بہت ہی ضعیف ہے، بلکہ وضع سے متہم ہے)»
قال الشيخ الألباني: موضوع، ابن ماجة (222) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (41)، المشكاة (217)، ضعيف الجامع (3987) //
قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء رضی الله عنہ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی الله عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، ابو الدرداء نے کہا: (اچھا تو سنو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا“ ۱؎۔
۱- ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے، اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے، ۲- یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند «داود بن جميل عن كثير بن قيس عن أبي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العلم 1 (3641)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (223) (تحفة الأشراف: 10958)، وسنن الدارمی/المقدمة 32 (354) (صحیح) (سند میں کثیر بن قیس، یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: زہد وکیع رقم 519)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علماء و محدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں، حصول علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو، علم دین حاصل کرنے والے کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (223)
یزید بن سلمہ جعفی کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے بہت سی حدیثیں آپ سے سنی ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں بعد کی حدیثیں شروع کی حدیثوں کو بھلا نہ دیں، آپ مجھے کوئی ایسا کلمہ (کوئی ایسی بات) بتا دیجئیے جو دونوں (اول و آخر) کو ایک ساتھ باقی رکھنے کا ذریعہ بنے۔ آپ نے فرمایا: ”جو کچھ بھی تم جانتے ہو ان کے متعلق اللہ کا خوف و تقویٰ ملحوظ رکھو“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث ایسی ہے جس کی سند متصل نہیں ہے، یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے۔ ۲- میرے نزدیک ابن اشوع نے یزید بن سلمی (کے دور) کو نہیں پایا ہے، ۳- ابن اشوع کا نام سعید بن اشوع ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11830) (ضعیف) (سعید بن اشوع کا سماع یزید بن سلمہ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جن چیزوں سے تمہیں روکا گیا ہے ان سے باز رہو، اور جن چیزوں پر عمل کا حکم دیا گیا ہے ان پر عمل جاری رکھو، ایسا کرنا تمہارے لیے حدیثوں کے حفظ کے تعلق سے بہتر ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1696) // ضعيف الجامع الصغير (108) //
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافق میں دو خصلتیں (صفتیں) جمع نہیں ہو سکتی ہیں: حسن اخلاق اور دین کی سمجھ“۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم عوف کی اس حدیث کو صرف شیخ خلف بن ایوب عامری کی روایت سے جانتے ہیں، اور ابوکریب محمد بن علاء کے سوا کسی کو ہم نہیں جانتے جس نے خلف بن ایوب عامری سے روایت کی ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسے شخص ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14487) (صحیح) (دیکھئے: الصحیحة 278، و تراجع الألبانی 468)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (219 / التحقيق الثاني)، الصحيحة (278)
ابوامامہ باہلی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و برکت کی دعائیں کرتی ہیں۔
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- فضیل بن عیاض کہتے ہیں «ملكوت السموات» (عالم بالا) میں عمل کرنے والے عالم اور معلم کو بہت بڑی اہمیت و شخصیت کا مالک سمجھا اور پکارا جاتا ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4907) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (213 / التحقيق الثاني)، التعليق الرغيب (1 / 60)
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن بھلائی سے ہرگز آسودہ نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے آخری انجام جنت میں پہنچ جاتا ہے“۔
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4056) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (216) // والصواب (222)، ضعيف الجامع الصغير (4783) //
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے جہاں کہیں بھی اسے پائے وہ اسے حاصل کر لینے کا زیادہ حق رکھتا ہے“۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- ابراہیم بن فضل مدنی مخزومی حدیث بیان کرنے میں حفظ کے تعلق سے کمزور مانے جاتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 15 (4169) (تحفة الأشراف: 12940) (ضعیف جدا) (سند میں ابراہیم بن الفضل المخزومی متروک راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا (216) // كذا الأصل والصواب: أنه رقم " مشكاة المصابيح " وهو في " ضعيف الجامع الصغير " برقم (4302) //
|