كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: علم اور فہم دین 2. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ طَلَبِ الْعِلْمِ باب: علم حاصل کرنے کی فضیلت کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان (و ہموار) کر دیتا ہے“ ۱؎۔
یہ حدیث حسن ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء 18 (2699)، سنن ابی داود/ العلم 1 (3643)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 17 (225)، ویأتي في القراءت 12 (2945) (تحفة الأشراف: 12486)، و مسند احمد (2/252، 325، 407)، وسنن الدارمی/المقدمة 32 (356) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، معلوم ہوا کہ علم کے حصول کے لیے سفر کرنا مستحب ہے، موسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام کے ساتھ علم حاصل کرنے کے لیے سفر کیا، اور عبداللہ بن قیس رضی الله عنہ سے ایک حدیث کے علم کے لیے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ نے ایک مہینہ کا سفر طے کیا، علماء سلف حدیث کی طلب میں دور دراز کا سفر کرتے تھے، اگر خلوص نیت کے ساتھ علم شرعی کے حصول کی کوشش کی جائے تو اللہ رب العالمین جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (225)
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں (شمار) ہو گا“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم نے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 830) (حسن) (اس کے تین رواة ”خالد بن یزید“ ابو جعفر رازی“ اور ”ربیع بن انس“ پر کلام ہے، اور حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے اور ضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکر کیا ہے، نیز ابوہریرہ کے شاہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب 87، 88، السراج المنیر 254، و الضعیفة رقم 2037، تراجع الألبانی 354)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ علم حاصل کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (220)، الضعيفة (2037)، الروض النضير (109) // ضعيف الجامع الصغير (5570) //
سخبرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو علم حاصل کرے گا تو یہ اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا“۔
۱- اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ۲- راوی ابوداود نفیع اعمی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ۳- ہم عبداللہ بن سخبرہ سے مروی زیادہ حدیثیں نہیں جانتے اور نہ ان کے باپ کی (یعنی یہ دونوں باپ بیٹے غیر معروف قسم کے لوگ ہیں)، ابوداؤد کا نام نفیع الاعمیٰ ہے۔ ان کے بارے میں قتادہ اور دوسرے بہت سے اہل علم نے کلام کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3814) (موضوع) (سند میں ابوداود نفیع اعمی متروک الحدیث راوی ہے، دیکھئے: الضعیفة 5017)»
قال الشيخ الألباني: موضوع، المشكاة (221)، الضعيفة (5017) // ضعيف الجامع الصغير (5686) //
|