سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: علم اور فہم دین
Chapters on Knowledge
5. باب مَا جَاءَ فِي ذَهَابِ الْعِلْمِ
باب: علم کے ختم ہو جانے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2652
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني، حدثنا عبدة بن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من الناس، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يترك عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فافتوا بغير علم فضلوا واضلوا " , وفي الباب عن عائشة، وزياد بن لبيد، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى هذا الحديث الزهري، عن عروة، عن عبد الله بن عمرو، وعن عروة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا " , وفي الباب عن عَائِشَةَ، وَزِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ هَذَا.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے، لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعہ سے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ اپنا سردار جاہلوں کو بنا لیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے، اور زہری نے (ایک دوسری سند سے) عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی الله عنہا کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے،
۳- اس باب میں عائشہ اور زیاد بن لبید سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 34 (100)، والإعتصام 8 (7307)، صحیح مسلم/العلم 5 (2673)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 8 (52) (تحفة الأشراف: 8883)، و مسند احمد (2/162، 190)، وسنن الدارمی/المقدمة 26 (245) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ علمائے دین ختم ہو جائیں گے، جاہل پیشوا، امام اور سردار بن جائیں گے، انہیں قرآن و حدیث کا کچھ بھی علم نہیں ہو گا، پھر بھی یہ مجتہد و مفتی بن کر دینی مسائل کو بیان کریں گے، اپنے فتووں اور من گھڑت مسئلوں کے ساتھ یہ دوسروں کی گمراہی کا باعث بنیں گے۔ اے رب العالمین! اس امت کو ایسے جاہل پیشوا اور امام سے محفوظ رکھ، آمین۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (52)
حدیث نمبر: 2653
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني معاوية بن صالح، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير، عن ابيه جبير بن نفير، عن ابي الدرداء، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فشخص ببصره إلى السماء ثم قال:" هذا اوان يختلس العلم من الناس حتى لا يقدروا منه على شيء "، فقال زياد بن لبيد الانصاري: كيف يختلس منا وقد قرانا القرآن؟ فوالله لنقرانه، ولنقرئنه نساءنا، وابناءنا، فقال: " ثكلتك امك يا زياد إن كنت لاعدك من فقهاء اهل المدينة، هذه التوراة والإنجيل عند اليهود , والنصارى فماذا تغني عنهم " , قال جبير: فلقيت عبادة بن الصامت، قلت: الا تسمع إلى ما يقول اخوك ابو الدرداء؟ فاخبرته بالذي قال ابو الدرداء، قال: " صدق ابو الدرداء إن شئت لاحدثنك باول علم يرفع من الناس الخشوع يوشك ان تدخل مسجد جماعة فلا ترى فيه رجلا خاشعا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ومعاوية بن صالح ثقة عند اهل الحديث، ولا نعلم احدا تكلم فيه غير يحيى بن سعيد القطان، وقد روي عن معاوية بن صالح نحو هذا، وروى بعضهم هذا الحديث، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير، عن ابيه، عن عوف بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ:" هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ "، فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ: كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ؟ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ، وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا، وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ: " ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَهُودِ , وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ " , قَالَ جُبَيْرٌ: فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قُلْتُ: أَلَا تَسْمَعُ إِلَى مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، قَالَ: " صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنْ شِئْتَ لَأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنَ النَّاسِ الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَلَا تَرَى فِيهِ رَجُلًا خَاشِعًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ نَحْوُ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں، پھر فرمایا: ایسا وقت (آ گیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہو گا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا: (اللہ کے رسول!) علم ہم سے کس طرح چھین لیا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا: اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھو دے! میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتا تھا۔ یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود و نصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے؟ ۱؎ (کیا فائدہ پہنچایا تورات اور انجیل نے ان کو؟)۔ جبیر (راوی) کہتے ہیں: میری ملاقات عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء رضی الله عنہ کیا کہتے ہیں؟ پھر ابوالدرداء رضی الله عنہ نے جو کہا تھا وہ میں نے انہیں بتا دیا۔ انہوں نے کہا: ابوالدرداء رضی الله عنہ نے سچ کہا۔ اور اگر تم (مزید) جاننا چاہو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیا جانے والا علم، خشوع ہے۔ عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤ گے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- معاویہ بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اور یحییٰ بن سعید قطان کے سوا ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس نے ان کے متعلق کچھ کلام کیا ہو،
۳- معاویہ بن صالح سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے،
۴- بعضوں نے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر سے، عبدالرحمٰن نے اپنے والد جبیر سے، جبیر نے عوف بن مالک سے اور عوف بن مالک نے بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10928) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان کتابوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا؟ جس طرح یہود و نصاریٰ تورات و انجیل کو پا کر اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے، قرب قیامت میں یہی حال تم مسلمانوں کا بھی ہو گا، کیونکہ تمہارے اچھے علماء ختم ہو جائیں گے، اور قرآن تمہارے پاس ہو گا، پھر بھی تم اس کے فیض سے محروم رہو گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج اقتضاء العلم العمل (89)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.