سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Book on Zakat
29. باب مَا جَاءَ فِي حَقِّ السَّائِلِ
29. باب: مانگنے والے کے حق کا بیان۔
Chapter: , What Has Been Related About The Right Of The One Asking
حدیث نمبر: 665
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن سعيد بن ابي سعيد، عن عبد الرحمن بن بجيد، عن جدته ام بجيد، وكانت ممن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم، انها قالت: يا رسول الله، إن المسكين ليقوم على بابي فما اجد له شيئا اعطيه إياه، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن لم تجدي شيئا تعطينه إياه إلا ظلفا محرقا فادفعيه إليه في يده ". قال: وفي الباب عن علي، وحسين بن علي، وابي هريرة، وابي امامة. قال ابو عيسى: حديث ام بجيد حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بُجَيْدٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ بُجَيْدٍ، وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْمِسْكِينَ لَيَقُومُ عَلَى بَابي فَمَا أَجِدُ لَهُ شَيْئًا أُعْطِيهِ إِيَّاهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ لَمْ تَجِدِي شَيْئًا تُعْطِينَهُ إِيَّاهُ إِلَّا ظِلْفًا مُحْرَقًا فَادْفَعِيهِ إِلَيْهِ فِي يَدِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ بُجَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبدالرحمٰن بن بجید کی دادی ام بجید حواء رضی الله عنہا (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور اسے دینے کے لیے میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی۔ (تو میں کیا کروں؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اگر اسے دینے کے لیے تمہیں کوئی جلی ہوئی کھر ہی ملے تو وہی اس کے ہاتھ میں دے دو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ام بجید رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، حسین بن علی، ابوہریرہ اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وضاحت:
۱؎: اس میں مبالغہ ہے، مطلب یہ ہے کہ سائل کو یوں ہی مت لوٹاؤ جو بھی میسر ہو اسے دے دو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 33 (1667)، سنن النسائی/الزکاة 70 (2566)، (تحفة الأشراف: 1835)، مسند احمد (6/382- 383)، وأخرجہ موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ 5 (8)، و مسند احمد (704)، و (6/435)، من غیر ہذا الطریق والسیاق (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 29)، صحيح أبي داود (1467)

   سنن النسائى الصغرى2566حواءردوا السائل ولو بظلف
   سنن النسائى الصغرى2575حواءإن لم تجدي شيئا تعطينه إياه إلا ظلفا محرقا فادفعيه إليه
   جامع الترمذي665حواءإن لم تجدي شيئا تعطينه إياه إلا ظلفا محرقا فادفعيه إليه في يده
   سنن أبي داود1667حواءإن لم تجدي له شيئا تعطينه إياه إلا ظلفا محرقا فادفعيه إليه في يده

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 665 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 665  
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں مبالغہ ہے،
مطلب یہ ہے کہ سائل کو یوں ہی مت لوٹاؤ جو بھی میسر ہو اسے دیدو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 665   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1667  
´سائل کے حق کا بیان۔`
ام بجید رضی اللہ عنہا یہ ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، وہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے دروازے پر مسکین کھڑا ہوتا ہے لیکن میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو میں اسے دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نہ ملے جو تم اسے دے سکو سوائے ایک جلے ہوئے کھر کے تو وہی اس کے ہاتھ میں دے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1667]
1667. اردو حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دو خالی ہاتھ نہ لوٹائو مگر پیشہ ور عادی سائل کا یہ حکم نہیں۔پیشہ ور گداگروں کو دینا پیشہ گداگری کی حوصلہ افزائی ہے۔جو جرم ہے تاہم جس کا پیشہ ور ہونا یقینی نہ ہو تو اس کی حسب استطاعت امداد کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1667   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2566  
´مانگنے والے کو (کچھ دے کر) لوٹانے کا بیان۔`
ابن بجید انصاری اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مانگنے والے کو کچھ دے کر لوٹایا کرو اگرچہ کھر ہی سہی۔‏‏‏‏ ہارون کی روایت میں «محرق» (جلی ہوئی) کا اضافہ ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2566]
اردو حاشہ:
مقصد مبالغہ ہے، نیز یہ حکم تب ہے جب سائل حق دار ہو اور مسئول کے پاس گنجائش ہو، ورنہ پیشہ ور گداگروں کو (بشرطیکہ معلوم ہو) دینا تو گناہ ہی کے زمرے میں آسکتا ہے کیونکہ اس طرح گداگری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جبکہ اسلام نے اس کی سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2566   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2575  
´مسکین کی تفسیر۔`
ام بجید رضی الله عنہا (جو ان عورتوں میں سے ہیں جن ہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: (کبھی ایسا ہوتا ہے) کہ مسکین میرے دروازے پر آ کھڑا ہوتا ہے، اور میں اسے دینے کے لیے کوئی چیز موجود نہیں پاتی؟ آپ نے فرمایا: اگر تم اسے دینے کے لیے صرف جلی ہوئی کھر ہی پاؤ تو اسے وہی دے دو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2575]
اردو حاشہ:
سائل دروازے سے محروم نہیں جانا چاہیے۔ استحقاق اور عدم استحقاق کو تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے الا یہ کہ اس کا پیشہ ور ہونا معلوم ہو اور وہ حقیقتاً محتاج نہ ہو۔ (نیز دیکھیے، حدیث: 2566)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2575   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.