عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سر زمین پر دو قبلے ہونا درست نہیں ۱؎ اور نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: ایک سر زمیں پر دو قبلے کا ہونا درست نہیں کا مطلب یہ ہے کہ ایک سر زمین پر دو دین والے بطور برابری کے نہیں رہ سکتے کوئی حاکم ہو گا کوئی محکوم۔
۲؎: نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے کا مطلب یہ ہے کہ ذمیوں میں سے کوئی ذمی اگر جزیہ کی ادائیگی سے پہلے مسلمان ہو گیا ہو تو اس سے جزیہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الخراج 28 (3032)، (تحفة الأشراف: 5399)، مسند احمد (1/285) (ضعیف) (سند میں قابوس ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1244) // 1257 //، الضعيفة (4379) // ضعيف الجامع الصغير (6239)، ضعيف أبي داود (655 / 3032) نحوه //
قال الشيخ زبير على زئي: (633،634) إسناده ضعيف /د 3032
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 633
اردو حاشہ: 1؎: ایک سر زمیں پر دو قبلے کا ہونا درست نہیں کا مطلب یہ ہے کہ ایک سر زمین پر دو دین والے بطور برابری کے نہیں رہ سکتے کوئی حاکم ہو گا کوئی محکوم۔
2؎: نہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے کا مطلب یہ ہے کہ ذمیوں میں سے کوئی ذمی اگر جزیہ کی ادائیگی سے پہلے مسلمان ہو گیا ہو تو اس سے جزیہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
نوٹ: (سند میں قابوس ضعیف ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 633
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3032
´جزیرہ عرب سے یہود کے نکالنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ملک میں دو قبلے نہیں ہو سکتے“، (یعنی مسلمان اور یہود و نصاریٰ عرب میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3032]
فوائد ومسائل: یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ لیکن جس طرح عیسایئت کے مرکز ویٹکین سٹیٹ میں دوسرے دین کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں، اسی طرح مرکز اسلام کو اندرونی خلفشار سے پاک رکھنا عین مصلحت ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ الحرام ہے، جبکہ یہودیوں اور عیسایئوں کا قبلہ بیت المقدس ہے، قبلہ اس سمت کا تعین کرتا ہے۔ جس طرف فکر وعقیدہ کا رخ ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3032