كتاب القسامة والقود والديات کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل 16. بَابُ: الْقِصَاصِ فِي السِّنِّ باب: دانت کے قصاص کا بیان۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت میں قصاص کا فیصلہ فرمایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب قصاص کا حکم دیتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 685)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر البقرة 23 (4499) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے غلام کو قتل کیا، اسے ہم قتل کریں گے اور جس نے اپنے غلام کا کوئی عضو کاٹا تو اس کا عضو ہم کاٹیں گے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4740 (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: اس آخری جملہ کی باب سے مطابقت ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، پچھلی اور اگلی حدیثوں میں ہمارے لیے اس موضوع پر کافی مواد موجود ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے غلام کو خصی کیا اسے ہم خصی کریں گے اور جس نے اپنے غلام کا عضو کاٹا ہم اس کا عضو کاٹیں گے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4740 (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ربیع کی بہن ام حارثہ رضی اللہ عنہا ۱؎ نے ایک شخص کو زخمی کر دیا، وہ لوگ مقدمہ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قصاص ہو گا قصاص“، ام ربیع رضی اللہ عنہا بولیں: اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا؟ نہیں، اللہ کی قسم! اس سے کبھی بھی قصاص نہ لیا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی ذات پاک ہے، ام ربیع! قصاص تو اللہ کی کتاب کا حکم ہے“، وہ بولیں: نہیں، اس سے ہرگز قصاص نہ لیا جائے گا، وہ کہتی رہیں، یہاں تک کہ انہوں نے دیت قبول کر لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے بندوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کو (قسم میں) سچا کر دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/القسامة 5 (1675)، (تحفة الأشراف: 332)، مسند احمد (3/ 284) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں زخمی کرنے والی کا نام ربیع بنت نضر کی بہن ”ام حارثہ“ ہے اور اعتراض کرنے والی ربیع ہیں، جب کہ اگلی روایت میں زخمی کرنے کی نسبت خود ربیع بنت نضر کی طرف کی گئی ہے، اور اعتراض کرنے کی نسبت ان کے بھائی انس بن نضر کی طرف کی گئی ہے، حافظ ابن حزم وغیرہ علماء کی تحقیق کے مطابق یہ الگ الگ دو واقعات ہیں، حافظ ابن حجر کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے، (دیکھئیے کتاب الدیات باب ۱۹)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|