(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع، قال: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة: ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث ابا جهم بن حذيفة مصدقا فلاحه رجل في صدقته فضربه ابو جهم، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: القود يا رسول الله، فقال:" لكم كذا وكذا"، فلم يرضوا به، فقال:" لكم كذا وكذا"، فرضوا به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"، قالوا: نعم، فخطب النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن هؤلاء اتوني يريدون القود، فعرضت عليهم كذا وكذا، فرضوا"، قالوا: لا , فهم المهاجرون بهم , فامرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يكفوا، فكفوا، ثم دعاهم، قال:" ارضيتم؟"، قالوا: نعم، قال:" فإني خاطب على الناس ومخبرهم برضاكم"، قالوا: نعم، فخطب الناس، ثم قال:" ارضيتم؟"، قالوا: نعم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا فَلَاحَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: الْقَوَدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" لَكُمْ كَذَا وَكَذَا"، فَلَمْ يَرْضَوْا بِهِ، فَقَالَ:" لَكُمْ كَذَا وَكَذَا"، فَرَضُوا بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ"، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ هَؤُلَاءِ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا، فَرَضُوا"، قَالُوا: لَا , فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ , فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا، فَكَفُّوا، ثُمَّ دَعَاهُمْ، قَالَ:" أَرَضِيتُمْ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ"، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ قَالَ:" أَرَضِيتُمْ؟"، قَالُوا: نَعَمْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو زکاۃ لینے کے لیے بھیجا تو ایک شخص اپنے صدقے کے سلسلے میں ان سے لڑ گیا، تو ابوجہم نے اسے مار دیا، ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! بدلہ دیجئیے، آپ نے فرمایا: ”اتنا اتنا مال لے لو“، وہ اس پر راضی نہ ہوئے، تو آپ نے فرمایا: ”(اچھا) اتنا اتنا مال لے لو“، تو وہ اس پر راضی ہو گئے، پھر آپ نے فرمایا: ”میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں تمہاری رضا مندی کی اطلاع دوں گا“، ان لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا اور فرمایا: ”یہ لوگ میرے پاس قصاص مانگنے آئے تھے تو میں نے ان پر اتنے اتنے مال کی پیش کش کی ہے اور وہ اس پر راضی ہیں“، لیکن وہ لوگ بولے: نہیں، تو مہاجرین نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ٹھہر جانے کا حکم دیا، چنانچہ وہ لوگ باز رہے، پھر آپ نے انہیں بلایا اور فرمایا: ”کیا تم رضامند ہو؟“ وہ بولے: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”میں لوگوں سے خطاب کروں گا اور تمہاری رضا مندی کی انہیں اطلاع دوں گا“، انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ آپ نے لوگوں سے خطاب کیا پھر (ان سے) فرمایا: ”کیا تم اس پر راضی ہو؟“ وہ بولے: جی ہاں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 13 (4534)، سنن ابن ماجہ/الدیات 10 (2638)، (تحفة الأشراف: 16636)، مسند احمد (6/232) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے «العامل یصاب علی یدہ خطأ» یعنی ”عامل کے ذریعہ کسی کو غلطی سے زخم لگ جائے“ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری عامل ہونے کی وجہ سے قصاص معاف نہیں ہو گا، ہاں دیت پر راضی ہو جانے کی صورت میں سرکاری بیت المال سے دیت دلوائی جائے گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلوائی۔