جُمَّاعُ أَبْوَابِ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي نمازی کے سُترہ کے ابواب کا مجموعہ 537. (304) بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ رُوِيَ فِي مُرُورِ الْحِمَارِ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، نمازی کے آگے سے گدھے کے گزرنے کے بارے میں مروی حدیث کا بیان،
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ ”گدھا، کُتّا اور عورت نماز کو کاٹ دیتے ہیں۔“
تخریج الحدیث:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اور فضل رضی اللہ عنہما ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے جبکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے تو ہم کچھ صفوں کے آگے سے گزرگئے، پھر ہم اس سے اُترے اور اُسے چرنے کے لئے چھوڑ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کچھ نہ کہا۔ جناب عبدالجبار کی روایت میں ہے ”تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا ـ“ جناب مخزومی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہ کہا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت کو امام معمر اور مالک نے اس طرح روایت کیا کہ ”آپ لوگوں کو منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے۔“
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
جناب معمر رحمه الله کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ”اور گدھی لوگوں کے آگے سے گزر گئی لیکن اُس نے اُن کی نماز کو توڑا نہیں۔ اور امام مالک رحمه الله کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں ایک گدھے پر سوار تھا تو میں نے اُسے صفوں کے درمیان چھوڑ دیا اور میں خود نماز میں شریک ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اس کام کی وجہ سے) ڈانٹا نہیں۔ امام ابوبکر رحمه اﷲ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بیان نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھی کو صفوں کے آگے سے گزرتے یا چرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور نہ یہ ذکر ہوا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن افراد کو نماز لوٹانے کا حُکم نہیں دیا جن کے آگے سے گدھی گزری تھی - اور یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور صحیح ہے کہ سیاہ کُتّا، حائضہ عورت اور گدھا نماز کو کاٹ دیتے ہیں۔ لہٰذا جب تک اس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت حدیث کے خلاف فتویٰ دینا اور رائے اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح بخاري
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اور بنو ہاشم کا ایک لڑکا ایک گدھے یا دو گدھوں پر سوار ہو کر آئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزر گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے (تو ہمارے گزرنے سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ توڑی، اور بنو عبدالمطلب کی دو بچّیاں آئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کہ پکڑلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو الگ الگ کر دیا لیکن نماز نہ توڑی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے گدھا گزرا تھا۔ بلکہ اُنہوں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزر گیا۔ اور یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما گدھے سے اُترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرے تھے کیونکہ اُنہوں نے فرمایا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرگیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
جناب عبید اللہ بن موسیٰ کی امام شعبہ سے روایت میں یہ الفاظ ہیں، تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزر گئے پھر ہم گدھے سے اترے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے۔ عبید اللہ بن موسیٰ کو محمد بن جعفر پر ترجیح دینا ناممکن ہے۔ خصوصاً امام شعبہ کی حدیث میں، اگرچہ محمد بن جعفر، امام شعبہ کی حدیث میں عبیداللہ بن موسیٰ جیسے متعدد راویوں کی بھی مخالفت کرے تو بھی محمد بن جعفر کو اُن پر ترجیح ہوگی۔ یہی روایت منصور بن معتمر نے اپنی سند سے صہیب سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھے تو ہم نے اُن چیزوں کا تذکرہ کیا جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے - حاضرین نے کہا کہ گدھے اور عورت (کے نمازی کے آگے سے گزرنے) سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں اور بنو عبدالمطلب کا ایک لڑکا گدھے پر اکھٹے سوار ہو کر آئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایک کھلی جگہ میں نماز پڑھا رہے تھے، تو ہم نے گدھے کو اُن کے آگے چھوڑ دیا، پھر ہم آئے اور اُن کے سامنے سے (نماز میں) داخل ہو گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پرواہ نہ کی۔ اور (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے تو بنو عبدالمطلب کی دو بچّیاں لڑتی ہوئی آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو پکڑا اور ایک بچّی کو دوسری سے کھینچ کر چھڑا دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔
تخریج الحدیث:
امام ابوبکر رحمه الله عليه فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہر بھی عبید اللہ بن عبداللہ کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے سامنے سے گدھا گزرا ہے نہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے۔ اور اس حدیث میں یہ بھی ذکر نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تھا۔ لیکن اگر حدیث میں اس بات کا ذکر ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا تھا کہ گدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ مقتدیوں کے آگے سے گزرا ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقتدیوں کے لئے کافی تھا ـ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ میں نماز پڑھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برچھی کو سُترہ بناتے تھے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترہ مقتدیوں کے لئے سُترہ نہ بنتا تو پھر ہر نمازی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح برچھی کے ساتھ سُترہ بنانا پڑتا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سُترے کے لئے برچھی کا اُٹھایا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقتدیوں کو (علیحدہ) سُترہ بنانے کا حُکم نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ امام کا سُترہ ہی مقتدیوں کا سُترہ ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح
امام ابن خزیمہ ابن جریج کی سند سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں اور فضل گدھی پر سوار ہوکر آئے، تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے عرفات میں گزرے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز پڑھا رہے تھے، کوئی بھی چیز بطور سُترہ ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل نہیں تھی۔
تخریج الحدیث:
امام ابوبکر رحمه ﷲ فرماتے ہیں کہ عبدا لکریم کی مجاہد سے روایت کو امام زہری کی عبیداﷲ بن عبداﷲ کی روایت پر حجت و دلیل بنانا جائز اور درست نہیں ہے۔ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت اس معنی کے برعکس بھی بیان کی گئی ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برچھی گاڑی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سُترہ بنا کر نماز ادا کی جبکہ گدھا برچھی کے پیچھے تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت عبدلکریم کی مجاہد سے بیان کردہ روایت کے مخالف ہے۔ کیونکہ اس روایت میں ہے کہ گدھا برچھی کے پیچھے تھا جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برچھی اپنے سامنے عرفات میں گاڑی تھی اور اُسے سُترہ بنا کر نماز پڑھی تھی۔ عبدالکریم کی مجاہد سے روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز پڑھا رہے تھے جبکہ ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل ہونے والا سُترہ نہیں تھا۔ عبدالکریم اور حکم بن ابان کی روایات نقل کے اعتبار سے قریب قریب ہیں۔ کیونکہ محدثین نے عبدالکریم کی روایت کو دلیل اور حجت بنانے میں جرح کی ہے ـ اور حکم بن ابان کی روایت کا حال بھی ایسے ہی ہے ـ البتہ حکم بن ابان کی روایت کی تائید نقل کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ہوتی ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح احادیث عبد الکریم کی مجاہد سے روایت کو رد کرتی ہیں۔ اور یہ فعل جسے عبدالکریم نے مجاہد رحمه الله کے واسطے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے تو اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت ثابت ہو چکی ہے۔ حضرت سہل بن ابی حثمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اسے سُترہ بنا کر نماز پڑھنی چاہیے، اور اسے سُترے کے قریب کھڑے ہونا چاہیے تو شیطان اس کی نماز کو کاٹ نہیں سکے گا۔“
تخریج الحدیث: حسن
جناب عون بن ابی جحیفہ کی اپنے والد سے روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برچھی گاڑ کرنماز پڑھنی شروع کی جبکہ اس کے پیچھے سے کُتّا، عورت اور گدھا گزر رہا تھا۔ اور جناب ربیع بن سبرہ جہنی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے کہ ”اپنی نماز میں سُترہ بنایا کرو۔ خواہ ایک تیر ہی کے ساتھ ہو۔“ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت میں ہے کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اسے سُترے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی چاہیے اور اُسے سُترے کے قریب ہو کر کھڑا ہونا چاہیے ـ“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایات صحیح ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو اپنی نماز میں سُترہ بنانے کا حُکم دیا ہے - جبکہ عبدالکریم نے مجاہد کے واسطے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے میدان میں بغیر سُترے کے نماز کی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں عرفات میں کوئی ایسی عمارت نہیں تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سُترہ بناتے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو بغیر سُترے کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اور صدقہ بن یسار کی روایت میں ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سترہ بنائے بغیر نماز مت پڑھو ـ“ اور موسٰی بن طلحہ کی اپنے والد محترم سے روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب گدھا نمازی کے آگے سے گذرے اور اس کے سامنے سُترہ نہ ہو تو گدھے کا اس کے آگے سے گزرنا اسے نقصان دے گا۔
تخریج الحدیث:
جناب موسیٰ بن طلحہ اپنے والد گرامی سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس حال میں نماز پڑھا کرتے تھے کہ چوپائے ہمارے سامنے سے گزرتے رہتے تھے، ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز ہو تو آگے سے گزرنے والی چیز اُسے نقصان نہیں دے گی۔“
تخریج الحدیث:
جناب موسی بن طلحہ کے والد محترم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز (بطور سترہ) رکھلے، پھر اُسے اپنے آگے سے گزرنے والی چیزیں ضرر نہیں دیںگی ـ“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ” کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز جب تم میں سے کسی شخص کے سامنے ہوگی تو اسے اپنے آگے سے گزرنے والی چیز نقصان نہیں دے گی۔“ میں واضح دلیل ہے کہ جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر سُترہ نہیں ہو گا تو اُسے اپنے آگے سے گزرنے والے چوپائے نقصان دیںگے۔ اور وہ چوپائے جن کا اُس کے آگے سے گزرنا نقصان دہ ہے، وہ وہی چوپائے ہیں جن کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ وہ نماز توڑ دیتے ہیں، اور وہ گدھا اور سیاہ کُتّا ہیں، جیسا کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ان کے علاوہ دیگر چوپائے مراد نہیں ہیں جو نماز نہیں کاٹتے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
|