صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي
نمازی کے سُترہ کے ابواب کا مجموعہ
537. (304) بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ رُوِيَ فِي مُرُورِ الْحِمَارِ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي،
نمازی کے آگے سے گدھے کے گزرنے کے بارے میں مروی حدیث کا بیان،
حدیث نمبر: Q833
Save to word اعراب
قد يحسب بعض اهل العلم انه خلاف خبر النبي صلى الله عليه وسلم: يقطع الصلاة الحمار والكلب والمراة قَدْ يَحْسِبُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ خِلَافُ خَبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْحِمَارُ وَالْكَلْبُ وَالْمَرْأَةُ
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے خلاف ہے کہ گدھا، کُتّا اور عورت نماز کو کاٹ دیتے ہیں۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 833
Save to word اعراب
ناه ابو موسى محمد بن المثنى ، وعبد الجبار بن العلاء ، وسعيد بن عبد الرحمن ، قالوا: حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن ابن عباس ، قال: جئت انا والفضل ونحن على اتان، ورسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي بالناس بعرفة، فمررنا على بعض الصفوف، فنزلنا عنها، وتركناها ترتع، فلم يقل لنا" ، قال ابو موسى: يعني شيئا، وقال عبد الجبار: فلم ينهنا النبي صلى الله عليه وسلم، وقال المخزومي: فلم يقل لنا شيئا قال ابو بكر: رواه معمر، ومالك، فقالا: يصلي بالناس بمنىناهُ أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ وَنَحْنُ عَلَى أَتَانٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِعَرَفَةَ، فَمَرَرْنَا عَلَى بَعْضِ الصُّفُوفِ، فَنَزَلْنَا عَنْهَا، وَتَرَكْنَاهَا تَرْتَعُ، فَلَمْ يَقُلْ لَنَا" ، قَالَ أَبُو مُوسَى: يَعْنِي شَيْئًا، وَقَالَ عَبْدُ الْجَبَّارِ: فَلَمْ يَنْهَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ الْمَخْزُومِيُّ: فَلَمْ يَقُلْ لَنَا شَيْئًا قَالَ أَبُو بَكْرٍ: رَوَاهُ مَعْمَرٌ، وَمَالِكٌ، فَقَالا: يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِمِنًى
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اور فضل رضی اللہ عنہما ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے جبکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے تو ہم کچھ صفوں کے آگے سے گزرگئے، پھر ہم اس سے اُترے اور اُسے چرنے کے لئے چھوڑ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کچھ نہ کہا۔ جناب عبدالجبار کی روایت میں ہے تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا ـ جناب مخزومی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہ کہا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت کو امام معمر اور مالک نے اس طرح روایت کیا کہ آپ لوگوں کو منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 834
Save to word اعراب
ثناه ابو موسى، حدثني عبد الاعلى، ثنا معمر، ح وثنا يونس بن عبد الاعلى، اخبرنا ابن وهب، ان مالكا حدثه، ح وحدثنا يعقوب الدورقي، ثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن مالك، في خبر معمر " ومرت الاتان بين يدي الناس، فلم يقطع عليهم الصلاة" وفي عبد الرحمن، عن مالك:" وانا على حمار فتركته بين الصف، ودخلت في الصلاة، فلم يعب علي". قال ابو بكر: وليس في هذا الخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم راى الاتان تمر، ولا ترتع بين يدي الصفوف، ولا ان النبي صلى الله عليه وسلم اعلم بذلك فلم يامر من مرت الاتان بين يديه بإعادة الصلاة، والخبر ثابت صحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم ان" الكلب الاسود، والمراة الحائض، والحمار، يقطع الصلاة" وما لم يثبت خبر عن النبي صلى الله عليه وسلم بضد ذلك لم يجز القول والفتيا بخلاف ما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلمثناهُ أَبُو موسى، حَدَّثَنِي عَبْدُ الأَعْلَى، ثنا مَعْمَرٌ، ح وَثنا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ، ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مَالِكٍ، فِي خَبَرِ مَعْمَرٍ " وَمَرَّتِ الأَتَانُ بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ، فَلَمْ يَقْطَعْ عَلَيْهِمُ الصَّلاةَ" وَفِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مَالِكٍ:" وَأَنَا عَلَى حِمَارٍ فَتَرَكْتُهُ بَيْنَ الصَّفِّ، وَدَخَلْتُ فِي الصَّلاةِ، فَلَمْ يَعِبْ عَلَيَّ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَيْسَ فِي هَذَا الْخَبَرِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى الأَتَانَ تَمُرُّ، وَلا تَرْتَعُ بَيْنَ يَدَيِ الصُّفُوفِ، وَلا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُعْلِمَ بِذَلِكَ فَلَمْ يَأْمُرْ مَنْ مَرَّتِ الأَتَانُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِعَادَةِ الصَّلاةِ، وَالْخَبَرُ ثَابِتٌ صَحِيحٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ" الْكَلْبَ الأَسْوَدَ، وَالْمَرْأَةَ الْحَائِضَ، وَالْحِمَارَ، يَقْطَعُ الصَّلاةَ" وَمَا لَمْ يَثْبُتْ خَبَرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضِدِّ ذَلِكَ لَمْ يَجُزِ الْقَوْلُ وَالْفُتْيَا بِخِلافِ مَا ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
جناب معمر رحمه الله کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور گدھی لوگوں کے آگے سے گزر گئی لیکن اُس نے اُن کی نماز کو توڑا نہیں۔ اور امام مالک رحمه الله کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں ایک گدھے پر سوار تھا تو میں نے اُسے صفوں کے درمیان چھوڑ دیا اور میں خود نماز میں شریک ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اس کام کی وجہ سے) ڈانٹا نہیں۔ امام ابوبکر رحمه اﷲ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بیان نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھی کو صفوں کے آگے سے گزرتے یا چرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور نہ یہ ذکر ہوا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن افراد کو نماز لوٹانے کا حُکم نہیں دیا جن کے آگے سے گدھی گزری تھی - اور یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور صحیح ہے کہ سیاہ کُتّا، حائضہ عورت اور گدھا نماز کو کاٹ دیتے ہیں۔ لہٰذا جب تک اس کے برعکس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت حدیث کے خلاف فتویٰ دینا اور رائے اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 835
Save to word اعراب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں اور بنو ہاشم کا ایک لڑکا ایک گدھے یا دو گدھوں پر سوار ہو کر آئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزر گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے (تو ہمارے گزرنے سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ توڑی، اور بنو عبدالمطلب کی دو بچّیاں آئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کہ پکڑلیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو الگ الگ کر دیا لیکن نماز نہ توڑی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے گدھا گزرا تھا۔ بلکہ اُنہوں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزر گیا۔ اور یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما گدھے سے اُترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرے تھے کیونکہ اُنہوں نے فرمایا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرگیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 836
Save to word اعراب
جناب عبید اللہ بن موسیٰ کی امام شعبہ سے روایت میں یہ الفاظ ہیں، تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزر گئے پھر ہم گدھے سے اترے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے۔ عبید اللہ بن موسیٰ کو محمد بن جعفر پر ترجیح دینا ناممکن ہے۔ خصوصاً امام شعبہ کی حدیث میں، اگرچہ محمد بن جعفر، امام شعبہ کی حدیث میں عبیداللہ بن موسیٰ جیسے متعدد راویوں کی بھی مخالفت کرے تو بھی محمد بن جعفر کو اُن پر ترجیح ہوگی۔ یہی روایت منصور بن معتمر نے اپنی سند سے صہیب سے بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھے تو ہم نے اُن چیزوں کا تذکرہ کیا جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے - حاضرین نے کہا کہ گدھے اور عورت (کے نمازی کے آگے سے گزرنے) سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں اور بنو عبدالمطلب کا ایک لڑکا گدھے پر اکھٹے سوار ہو کر آئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایک کھلی جگہ میں نماز پڑھا رہے تھے، تو ہم نے گدھے کو اُن کے آگے چھوڑ دیا، پھر ہم آئے اور اُن کے سامنے سے (نماز میں) داخل ہو گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پرواہ نہ کی۔ اور (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے تو بنو عبدالمطلب کی دو بچّیاں لڑتی ہوئی آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو پکڑا اور ایک بچّی کو دوسری سے کھینچ کر چھڑا دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 837
Save to word اعراب
امام ابوبکر رحمه الله عليه فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہر بھی عبید اللہ بن عبداللہ کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے سامنے سے گدھا گزرا ہے نہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے۔ اور اس حدیث میں یہ بھی ذکر نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تھا۔ لیکن اگر حدیث میں اس بات کا ذکر ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا تھا کہ گدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ مقتدیوں کے آگے سے گزرا ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقتدیوں کے لئے کافی تھا ـ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ میں نماز پڑھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برچھی کو سُترہ بناتے تھے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترہ مقتدیوں کے لئے سُترہ نہ بنتا تو پھر ہر نمازی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح برچھی کے ساتھ سُترہ بنانا پڑتا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سُترے کے لئے برچھی کا اُٹھایا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقتدیوں کو (علیحدہ) سُترہ بنانے کا حُکم نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ امام کا سُترہ ہی مقتدیوں کا سُترہ ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح
حدیث نمبر: 838
Save to word اعراب
امام ابن خزیمہ ابن جریج کی سند سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں اور فضل گدھی پر سوار ہوکر آئے، تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے عرفات میں گزرے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز پڑھا رہے تھے، کوئی بھی چیز بطور سُترہ ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل نہیں تھی۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 839
Save to word اعراب
وقد روى ابن جريج ، قال: اخبرني عبد الكريم ، ان مجاهدا اخبره، عن ابن عباس ، قال:" جئت انا والفضل على اتان، فمررنا بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة وهو يصلي المكتوبة، ليس شيء يستره، يحول بيننا وبينه" . ثناه عبد الله بن إسحاق الجوهري ، نا ابو عاصم ، عن ابن جريج ، قال ابو بكر: وغير جائز ان يحتج بعبد الكريم، عن مجاهد، على الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله وهذه اللفظة قد رويت عن ابن عباس خلاف هذا المعنىوَقَدْ رَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ ، أَنَّ مُجَاهِدًا أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ عَلَى أَتَانٍ، فَمَرَرْنَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ وَهُوَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ، لَيْسَ شَيْءٌ يَسْتُرُهُ، يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ" . ثناهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ الْجَوْهَرِيُّ ، نَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَغَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يُحْتَجَّ بِعَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَلَى الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَهَذِهِ اللَّفْظَةُ قَدْ رُوِيَتْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ خِلافَ هَذَا الْمَعْنَى
امام ابوبکر رحمه ﷲ فرماتے ہیں کہ عبدا لکریم کی مجاہد سے روایت کو امام زہری کی عبیداﷲ بن عبداﷲ کی روایت پر حجت و دلیل بنانا جائز اور درست نہیں ہے۔ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت اس معنی کے برعکس بھی بیان کی گئی ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 840
Save to word اعراب
نا محمد بن رافع ، حدثنا إبراهيم بن الحكم بن ابان ، حدثني ابي ، ح وحدثنا محمد بن يحيى ، حدثني إبراهيم بن الحكم ، نا ابي ، ح وحدثنا سعد بن عبد الله بن عبد الحكم ، حدثنا حفص بن عمر المقرئ ، حدثنا الحكم بن ابان ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال:" ركزت العنزة بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفات، فصلى إليها، والحمار من وراء العنزة" . قال ابو بكر: فهذا الخبر مضاد خبر عبد الكريم، عن مجاهد ؛ لان في هذا الخبر ان الحمار إنما كان وراء العنزة، وقد ركز النبي صلى الله عليه وسلم العنزة بين يديه بعرفة، فصلى إليها، وفي خبر عبد الكريم، عن مجاهد، قال: وهو يصلي المكتوبة ليس شيء يستره يحول بيننا وبينه، وخبر عبد الكريم، وخبر الحكم بن ابان قريب من جهة النقل، لان عبد الكريم قد تكلم اهل المعرفة بالحديث في الاحتجاج بخبره، وكذلك خبر الحكم بن ابان، غير ان خبر الحكم بن ابان تؤيده اخبار عن النبي صلى الله عليه وسلم صحاح من جهة النقل وخبر عبد الكريم عن مجاهد يدفعه اخبار صحاح من جهة النقل عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهذا الفعل الذي ذكره عبد الكريم، عن مجاهد، عن ابن عباس قد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قد زجر عن مثل هذا الفعل في خبر سهل بن ابي حثمة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا صلى احدكم فليصل إلى سترة، وليدن منها، لا يقطع الشيطان عليه صلاته"نَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَكَمِ ، نَا أَبِي ، ح وَحَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْمُقْرِئُ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" رُكِزَتِ الْعَنَزَةُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ، فَصَلَّى إِلَيْهَا، وَالْحِمَارُ مِنْ وَرَاءِ الْعَنَزَةِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذَا الْخَبَرُ مُضَادُّ خَبَرِ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ ؛ لأَنَّ فِي هَذَا الْخَبَرِ أَنَّ الْحِمَارَ إِنَّمَا كَانَ وَرَاءَ الْعَنَزَةِ، وَقَدْ رَكَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَنَزَةَ بَيْنَ يَدَيْهِ بِعَرَفَةَ، فَصَلَّى إِلَيْهَا، وَفِي خَبَرِ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: وَهُوَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ لَيْسَ شَيْءٌ يَسْتُرُهُ يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ، وَخَبَرُ عَبْدِ الْكَرِيمِ، وَخَبَرُ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ قَرِيبٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، لأَنَّ عَبْدَ الْكَرِيمِ قَدْ تَكَلَّمَ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ فِي الاحْتِجَاجِ بِخَبَرِهِ، وَكَذَلِكَ خَبَرِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، غَيْرَ أَنَّ خَبَرَ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ تُؤَيِّدُهُ أَخْبَارٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِحَاحٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ وَخَبَرُ عَبْدِ الْكَرِيمِ عَنْ مُجَاهِدٍ يَدْفَعُهُ أَخْبَارٌ صِحَاحٌ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا الْفِعْلُ الَّذِي ذَكَرَهُ عَبْدُ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ زَجَرَ عَنْ مِثْلِ هَذَا الْفِعْلِ فِي خَبَرِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا، لا يَقْطَعُ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلاتَهُ"
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برچھی گاڑی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سُترہ بنا کر نماز ادا کی جبکہ گدھا برچھی کے پیچھے تھا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت عبدلکریم کی مجاہد سے بیان کردہ روایت کے مخالف ہے۔ کیونکہ اس روایت میں ہے کہ گدھا برچھی کے پیچھے تھا جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برچھی اپنے سامنے عرفات میں گاڑی تھی اور اُسے سُترہ بنا کر نماز پڑھی تھی۔ عبدالکریم کی مجاہد سے روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز پڑھا رہے تھے جبکہ ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل ہونے والا سُترہ نہیں تھا۔ عبدالکریم اور حکم بن ابان کی روایات نقل کے اعتبار سے قریب قریب ہیں۔ کیونکہ محدثین نے عبدالکریم کی روایت کو دلیل اور حجت بنانے میں جرح کی ہے ـ اور حکم بن ابان کی روایت کا حال بھی ایسے ہی ہے ـ البتہ حکم بن ابان کی روایت کی تائید نقل کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ہوتی ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح احادیث عبد الکریم کی مجاہد سے روایت کو رد کرتی ہیں۔ اور یہ فعل جسے عبدالکریم نے مجاہد رحمه الله کے واسطے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے تو اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت ثابت ہو چکی ہے۔ حضرت سہل بن ابی حثمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اسے سُترہ بنا کر نماز پڑھنی چاہیے، اور اسے سُترے کے قریب کھڑے ہونا چاہیے تو شیطان اس کی نماز کو کاٹ نہیں سکے گا۔

تخریج الحدیث: حسن
حدیث نمبر: 841
Save to word اعراب
وفي خبر عون بن ابي جحيفة ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم " ركز عنزة فجعل يصلي إليها يمر من ورائها الكلب، والمراة، والحمار" . ناه الدورقي ، نا ابن مهدي ، ح وحدثنا ابو موسى ، حدثنا عبد الرحمن ، نا سفيان ، عن عون بن ابي جحيفة، وفي خبر الربيع بن سبرة الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" استتروا في صلاتكم ولو بسهم" وفي خبر ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا صلى احدكم فليصل إلى سترة، وليدن منها" قال ابو بكر: فهذه الاخبار كلها صحاح، قد امر النبي صلى الله عليه وسلم المصلي ان يستتر في صلاته وزعم عبد الكريم، عن مجاهد، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى إلى غير سترة، وهو في فضاء ؛ لان عرفات لم يكن بها بناء على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يستتر به النبي صلى الله عليه وسلم، وقد زجر صلى الله عليه وسلم ان يصلي المصلي إلا إلى سترة. وفي خبر صدقة بن يسار، سمعت ابن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تصلوا إلا إلى سترة" وقد زجر صلى الله عليه وسلم ان يصلي المصلي إلا إلى سترة، فكيف يفعل ما يزجر عنه صلى الله عليه وسلم؟ وفي خبر موسى بن طلحة، عن ابيه، كالدال على ان الحمار إذا مر بين يدي المصلي ولا سترة بين يديه، ضره مرور الحمار بين يديهوَفِي خَبَرِ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَكَزَ عَنَزَةً فَجَعَلَ يُصَلِّي إِلَيْهَا يَمُرُّ مِنْ وَرَائِهَا الْكَلْبُ، وَالْمَرْأَةُ، وَالْحِمَارُ" . ناهُ الدَّوْرَقِيُّ ، نَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، نَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، وَفِي خَبَرِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَتَرُوا فِي صَلاتِكُمْ وَلَوْ بِسَهْمٍ" وَفِي خَبَرِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ، وَلْيَدْنُ مِنْهَا" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَهَذِهِ الأَخْبَارُ كُلُّهَا صِحَاحٌ، قَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُصَلِّيَ أَنْ يَسْتَتِرَ فِي صَلاتِهِ وَزَعَمَ عَبْدُ الْكَرِيمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ، وَهُوَ فِي فَضَاءٍ ؛ لأَنَّ عَرَفَاتٍ لَمْ يَكُنْ بِهَا بِنَاءٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَتِرُ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ زَجَرَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلِّيَ الْمُصَلِّي إِلا إِلَى سُتْرَةٍ. وَفِي خَبَرِ صَدَقَةَ بْنِ يَسَارٍ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لا تُصَلُّوا إِلا إِلَى سُتْرَةٍ" وَقَدْ زَجَرَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلِّيَ الْمُصَلِّي إِلا إِلَى سُتْرَةٍ، فَكَيْفَ يَفْعَلُ مَا يَزْجُرُ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَفِي خَبَرِ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، كَالدَّالِ عَلَى أَنَّ الْحِمَارَ إِذَا مَرَّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي وَلا سُتْرَةَ بَيْنَ يَدَيْهِ، ضَرَّهُ مُرُورُ الْحِمَارِ بَيْنَ يَدَيْهِ
جناب عون بن ابی جحیفہ کی اپنے والد سے روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برچھی گاڑ کرنماز پڑھنی شروع کی جبکہ اس کے پیچھے سے کُتّا، عورت اور گدھا گزر رہا تھا۔ اور جناب ربیع بن سبرہ جہنی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے کہ اپنی نماز میں سُترہ بنایا کرو۔ خواہ ایک تیر ہی کے ساتھ ہو۔ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو اسے سُترے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی چاہیے اور اُسے سُترے کے قریب ہو کر کھڑا ہونا چاہیے ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ تمام روایات صحیح ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو اپنی نماز میں سُترہ بنانے کا حُکم دیا ہے - جبکہ عبدالکریم نے مجاہد کے واسطے سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے میدان میں بغیر سُترے کے نماز کی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں عرفات میں کوئی ایسی عمارت نہیں تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سُترہ بناتے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو بغیر سُترے کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ اور صدقہ بن یسار کی روایت میں ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سترہ بنائے بغیر نماز مت پڑھو ـ اور موسٰی بن طلحہ کی اپنے والد محترم سے روایت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب گدھا نمازی کے آگے سے گذرے اور اس کے سامنے سُترہ نہ ہو تو گدھے کا اس کے آگے سے گزرنا اسے نقصان دے گا۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 842
Save to word اعراب
جناب موسیٰ بن طلحہ اپنے والد گرامی سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس حال میں نماز پڑھا کرتے تھے کہ چوپائے ہمارے سامنے سے گزرتے رہتے تھے، ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز ہو تو آگے سے گزرنے والی چیز اُسے نقصان نہیں دے گی۔

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 843
Save to word اعراب
نا ابو موسى ، نا عبد الرحمن ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن موسى بن طلحة ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ليجعل احدكم بين يديه مثل مؤخرة الرحل، ثم لا يضره ما مر بين يديه" . قال ابو بكر: ففي قوله صلى الله عليه وسلم:" مثل مؤخرة الرحل يكون بين يدي احدكم، ثم لا يضره ما مر بين يديه" دلالة واضحة إذا لم يكن بين يديه مثل مؤخرة الرحل ضره مرور الدواب بين يديه، والدواب التي تضر مرورها بين يديه هي الدواب التي اعلم النبي صلى الله عليه وسلم انها تقطع الصلاة، وهو الحمار، والكلب الاسود، على ما اعلم المصطفى صلى الله عليه وسلم، لا غيرهما من الدواب التي لا تقطع الصلاةنَا أَبُو مُوسَى ، نَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لِيَجْعَلْ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ، ثُمَّ لا يَضُرُّهُ مَا مَرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَفِي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ يَكُونُ بَيْنَ يَدَيْ أَحَدِكُمْ، ثُمَّ لا يَضُرُّهُ مَا مَرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ" دَلالَةٌ وَاضِحَةٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ ضَرَّهُ مُرُورُ الدَّوَابِّ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَالدَّوَابُّ الَّتِي تَضُرُّ مُرُورُهَا بَيْنَ يَدَيْهِ هِيَ الدَّوَابُّ الَّتِي أَعْلَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا تَقْطَعُ الصَّلاةَ، وَهُوَ الْحِمَارُ، وَالْكَلْبُ الأَسْوَدُ، عَلَى مَا أَعْلَمَ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لا غَيْرَهُمَا مِنَ الدَّوَابِّ الَّتِي لا تَقْطَعُ الصَّلاةَ
جناب موسی بن طلحہ کے والد محترم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز (بطور سترہ) رکھلے، پھر اُسے اپنے آگے سے گزرنے والی چیزیں ضرر نہیں دیںگی ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر کوئی چیز جب تم میں سے کسی شخص کے سامنے ہوگی تو اسے اپنے آگے سے گزرنے والی چیز نقصان نہیں دے گی۔ میں واضح دلیل ہے کہ جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی کے برابر سُترہ نہیں ہو گا تو اُسے اپنے آگے سے گزرنے والے چوپائے نقصان دیںگے۔ اور وہ چوپائے جن کا اُس کے آگے سے گزرنا نقصان دہ ہے، وہ وہی چوپائے ہیں جن کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ وہ نماز توڑ دیتے ہیں، اور وہ گدھا اور سیاہ کُتّا ہیں، جیسا کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ان کے علاوہ دیگر چوپائے مراد نہیں ہیں جو نماز نہیں کاٹتے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.