امام ابوبکر رحمه الله عليه فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہر بھی عبید اللہ بن عبداللہ کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے سامنے سے گدھا گزرا ہے نہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے۔ اور اس حدیث میں یہ بھی ذکر نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تھا۔ لیکن اگر حدیث میں اس بات کا ذکر ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا تھا کہ گدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ مقتدیوں کے آگے سے گزرا ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقتدیوں کے لئے کافی تھا ـ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ میں نماز پڑھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برچھی کو سُترہ بناتے تھے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترہ مقتدیوں کے لئے سُترہ نہ بنتا تو پھر ہر نمازی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح برچھی کے ساتھ سُترہ بنانا پڑتا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سُترے کے لئے برچھی کا اُٹھایا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقتدیوں کو (علیحدہ) سُترہ بنانے کا حُکم نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ امام کا سُترہ ہی مقتدیوں کا سُترہ ہوتا ہے۔