كتاب الأشربة کتاب: مشروبات کے متعلق احکام و مسائل 7. بَابُ: التِّجَارَةِ فِي الْخَمْرِ باب: شراب کی تجارت کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب سود کے سلسلے میں سورۃ البقرہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، اور شراب کی تجارت کو حرام قرار دے دیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 105 (2226)، صحیح مسلم/المساقاة 12 (1580)، سنن ابی داود/البیوع 66 (3490)، سنن النسائی/البیوع 89 (4669)، (تحفة الأشراف: 17636) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے شراب بیچی ہے تو کہا: اللہ تعالیٰ سمرہ کو تباہ کرے، کیا اسے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہود پر اللہ کی لعنت ہو، اس لیے کہ ان پر چربی حرام کی گئی تھی، تو انہوں نے اسے پگھلایا اور بیچ دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 103 (2223)، الأنبیاء 50 (3457)، صحیح مسلم/المساقاة 13 (1582)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة 8 (4262)، (تحفة الأشراف: 10501)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/25)، سنن الدارمی/الأشرابة 9 (2150) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور بیچ کر اس کی قیمت کھا لی، معلوم ہوا کہ جیسے شراب حرام ہے، ویسے ہی اس کی قیمت لینا اور تجارت کرنا بھی حرام ہے، افسوس ہے کہ ہمارے زمانے میں بعض مسلمان تاجر اپنی دوکانوں میں شراب بھی رکھتے ہیں، اور خیال رکھتے ہیں کہ شراب کے بیچنے میں اتنا گناہ نہیں ہے جتنا اس کے پینے میں، حالانکہ حدیث کی روسے یہ سب برابر ہیں اور سب پر لعنت آتی ہے، اور شراب کا پیشہ حرام ہے، اس کا پینا اور پیلانا دونوں جائز نہیں، اسی طرح سود کا پیشہ اور جو تاجر شراب اور سود کی تجارت کرتا ہو اس کی دعوت میں جاتا تقوی اور دین داری کے خلاف ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|