كِتَابُ الْأَضَاحِي کتاب: قربانی کے احکام و مسائل 12. بَابُ: النَّهْيِ عَنْ ذَبْحِ الأُضْحِيَّةِ قَبْلَ الصَّلاَةِ باب: نماز عید سے پہلے قربانی کی ممانعت۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے قربانی کے دن قربانی کر لی یعنی نماز عید سے پہلے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العیدین 23 (954)، الأضاحي 4 (5549)، 7 (5554)، 9 (5558)، صحیح مسلم/الأضاحي 1 (1962)، سنن الترمذی/الأضاحي 2 (1494)، سنن النسائی/الضحایا 13 (4393)، (تحفة الأشراف: 11455)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/113، 117) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام ابن القیم فرماتے ہیں: اس باب میں صریح احادیث وارد ہیں کہ نماز عید سے پہلے ذبح کیا ہوا جانور کافی نہ ہو گا، خواہ نماز کا وقت آ گیا ہو، یا نہ آ گیا ہو، اور یہی اللہ تعالی کا دین ہے جس کو ہم اختیار کرتے ہیں، اور اس کے خلاف باطل ہے، امام کی نماز عیدگاہ میں ہو یا مسجد میں اگر امام نہ ہو، تو ہر شخص اپنی نماز کے بعد ذبح کرے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جندب بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عید الاضحی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، کچھ لوگوں نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے ذبح کیا ہو وہ دوبارہ قربانی کرے، اور جس نے نہ ذبح کیا ہو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العیدین 23 (985)، الصید 17 (500)، الأضاحي 12 (5562)، الأیمان 15 (6674)، التوحید 13 (7400)، صحیح مسلم/الأضاحي 1 (1960)، سنن النسائی/الأضاحي 3 (4373)، (تحفة الأشراف: 3251)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/ 312، 313) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عویمر بن اشقر رضی اللہ عنہ کہتے کہ انہوں نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی قربانی دوبارہ کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10921، ومصباح الزجاجة: 1091)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الضحایا3 (5)، مسند احمد (3/454، 4/341) (صحیح)» (سند میں عباد بن تمیم اور عویمر بن اشقر کے مابین انقطاع ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
ابوزید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر انصار کے گھروں میں سے ایک گھر سے ہوا، تو آپ نے وہاں گوشت بھوننے کی خوشبو پائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس شخص نے ذبح کیا ہے“؟ ہم میں سے ایک شخص آپ کی طرف نکلا، اور آ کر اس نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! میں نے نماز عید سے پہلے ذبح کر لیا، تاکہ گھر والوں اور پڑوسیوں کو کھلا سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ قربانی کا حکم دیا، اس شخص نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، میرے پاس ایک جذعہ یا بھیڑ کے بچہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی کو ذبح کر لو اور تمہارے بعد کسی کے لیے جذعہ کافی نہیں ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10699، ومصباح الزجاجة: 1092)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/77، 340، 341) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|