كِتَابُ الْأَضَاحِي کتاب: قربانی کے احکام و مسائل 3. بَابُ: ثَوَابِ الأُضْحِيَّةِ باب: قربانی کا ثواب۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو ابن آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، کھر اور بالوں سمیت (جوں کا توں) آئے گا، اور بیشک زمین پر خون گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام پیدا کر لیتا ہے، پس اپنے دل کو قربانی سے خوش کرو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأضاحي 1 (1493)، (تحفة الأشراف: 17343)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/239) (ضعیف)» (سند میں ابوالمثنیٰ ضعیف راوی ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس سے اجر و ثواب کی امید کرو۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے“، لوگوں نے عرض کیا: تو ہم کو اس میں کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی“ لوگوں نے عرض کیا: اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھیڑ میں (بھی) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3687، ومصباح الزجاجة: 1084؍ أ)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/368) (ضعیف جدا)» (سند میں ابوداود النخعی متروک الحدیث بلکہ متہم بالوضع راوی ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 1476)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
|