كِتَابُ الْأَضَاحِي کتاب: قربانی کے احکام و مسائل 2. بَابُ: الأَضَاحِيُّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لاَ باب: قربانی واجب ہے یا نہیں؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13938، ومصباح الزجاجة: 1084)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/321، 6/220) (حسن)» (سند میں عبد اللہ بن عیاش ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر حسن ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا قربانی واجب ہے؟ تو جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی ہے، اور آپ کے بعد مسلمانوں نے کی ہے، اور یہ سنت جاری ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7438)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الاضاحي11 (1506) (ضعیف)» (سند میں اسماعیل بن عیاش ہیں، جن کی روایت غیر شامیوں سے ضعیف ہے، نیزملاحظہ ہو: المشکاة: 1475)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی کے ہم مثل منقول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأضاحي 11 (1506)، (تحفة الأشراف: 6671)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ عرفہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا: ”لوگو! ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی ۱؎ اور ایک «عتیرہ» ہے“، تم جانتے ہو کہ «عتیرہ» کیا ہے؟ یہ وہی ہے جسے لوگ «رجبیہ» کہتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الضحایا 1 (2788)، سنن الترمذی/الأضاحي 19 (1518)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة (4229)، (تحفة الأشراف: 11244)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/215، 5/76) (حسن)» (سند میں ابو رملہ مجہول راوی ہے، لیکن شاہد کی تقویت سے حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: 264)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک قربانی پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہو گی۔ ۲؎: «عتیرہ»: وہ بکری ہے جور جب میں ذبح کی جاتی تھی، ابوداود کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ ۳؎: رجب کی قربانی پہلے شروع اسلام میں واجب تھی پھر منسوخ ہو گئی، دوسری حدیث میں ہے کہ «عتیرہ» کی قربانی کوئی چیز نہیں ہے، اب صرف عید کی قربانی ہے، ا س حدیث سے بھی عیدالاضحی میں قربانی کا وجوب نکلتا ہے، اور قائلین وجوب اس آیت سے بھی دلیل لیتے ہیں «فصل لربك وانحر» (سورة الكوثر: 2) کیونکہ امر وجوب کے لئے ہے، مخالف کہتے ہیں کہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ نحر (ذبح) اللہ کے لئے کر یعنی اللہ کے سوا اور کسی کے لئے نحر (ذبح) نہ کر جیسے مشرکین بت پوجنے والے بتوں کے نام پرنحر (ذبح) کیا کرتے تھے، اس سے منع کیا، اس سے عید کی قربانی کا وجوب نہیں معلوم ہوا، ایک اور جندب کی حدیث ہے جو آگے آئے گی، وہ بھی وجوب کی دلیل ہے، اور عدم وجوب والے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں، اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی پہلے کی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی، ایک مینڈھے کی (احمد، ابوداود، ترمذی) لیکن یہ عدم وجوب پر دلالت نہیں کرتا اس لئے کہ مراد اس میں وہ لوگ ہیں جن کو قربانی کی قدرت نہیں ان پر وجوب کا کوئی قائل نہیں۔ قال الشيخ الألباني: حسن
|