ابوزید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر انصار کے گھروں میں سے ایک گھر سے ہوا، تو آپ نے وہاں گوشت بھوننے کی خوشبو پائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس شخص نے ذبح کیا ہے“؟ ہم میں سے ایک شخص آپ کی طرف نکلا، اور آ کر اس نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! میں نے نماز عید سے پہلے ذبح کر لیا، تاکہ گھر والوں اور پڑوسیوں کو کھلا سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ قربانی کا حکم دیا، اس شخص نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، میرے پاس ایک جذعہ یا بھیڑ کے بچہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی کو ذبح کر لو اور تمہارے بعد کسی کے لیے جذعہ کافی نہیں ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10699، ومصباح الزجاجة: 1092)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/77، 340، 341) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3154
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو شیخ البانی ؒ نے مطلق صحیح اور شیخ زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی مطلق سنداً حسن کہا ہے۔ لیکن درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس روایت میں (اوحمل من الضان) کے الفاظ صحیح نہیں ہیں کیونکہ صحیح بخاری وغیرہ میں مذکورہ جملے کی بجائے (من المعز) کے الفاظ ہیں۔ علاوہ ازیں مسند احمد کے محققین نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (الموسوعة الحديثية مسندالإمام أحمد: 34/ 334) لہٰذا بھیڑ کا جذعه (ایک سال دنبہ، چھترا) مطلق جائز ہے جیسا کہ حدیث ہے: (ان الجذع يوفي مما توفي منه الثنية)(سنن ابن ماجة الأضاحي، باب مايجزي من الاضاحي، حديث: 3140) جذعہ جانور دو دانتے کی جگہ کفایت کرجاتا ہے۔ تاہم افضلیت دو دانتا جانور قربانی کرنے میں ہے جیسا کہ تفصیل حدیث نمبر: 3140 کے فوائد میں گزرچکی ہے۔ نیز جذعہ (ایک سالہ دنبہ چھترا) صرف بھیڑ کی قسم سے جائز ہے بکری کا جذعہ (ایک سالہ) جائز نہیں۔ واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3154