كِتَابُ الْأَضَاحِي کتاب: قربانی کے احکام و مسائل 7. بَابُ: مَا تُجْزِئُ مِنَ الأَضَاحِيِّ باب: قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں عنایت کیں، تو انہوں نے ان کو اپنے ساتھیوں میں قربانی کے لیے تقسیم کر دیا، ایک بکری کا بچہ بچ رہا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قربانی تم کر لو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوکالة 1 (2300)، الشرکة 12 (2500)، الأضاحي 2 (5547)، 7 (5555)، صحیح مسلم/الأضاحي 2 (1965)، سنن الترمذی/الاضاحي 7 (1500)، سنن النسائی/الضحایا 12 (4384)، (تحفة الأشراف: 9955)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/149، 152)، سنن الدارمی/الأضاحي 4 (1991) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بیہقی کی روایت میں ہے کہ تمہارے بعد پھر کسی کے لیے یہ جائز نہ ہو گا، اس کی سند صحیح ہے، جمہور علماء اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ دانتی بکری جس کے سامنے والے نچلے دو دانت خودبخود اکھڑنے کے بعد گر کر دوبارہ نکل آئے ہوں اس سے کم عمر کی بکری کی قربانی جائز نہیں کیونکہ ابوبردہ رضی اللہ عنہ کی صحیحین میں حدیث ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول میرے پاس بکری کا ایک جذعہ ہے جس کو میں نے گھر میں پالا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسی کو ذبح کر دو اور تمہارے سوا اور کسی کو یہ کافی نہ ہو گا“ اور جذعہ وہ ہے جو ایک سال کا ہو گیا ہو، لیکن جمہور علماء اور اہل حدیث کے نزدیک بھیڑ کا جذعہ جائز ہے، یعنی اگر بھیڑ ایک سال کی ہو جائے تو اس کی قربانی جائز ہے، مسند احمد، اور سنن ترمذی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ بھیڑ کا جذعہ اچھی قربانی ہے، لیکن بکری کا جذعہ تو وہ بالاتفاق جائز نہیں ہے، یہ امام نووی نے نقل کیا ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ اونٹ، گائے اور بکری کی قربانی دانتے جانوروں کی جائز ہے، اس سے کم عمر والے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ہلال اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھیڑ کے ایک سالہ بچے کی قربانی جائز ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11737، ومصباح الزجاجة: 1088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/368) (ضعیف)» (ام محمد بن أبی یحییٰ اور ام بلال دونوں مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 65)
وضاحت: ۱؎: جذعہ: بھیڑ کا بچہ جو ایک سال کا ہو جائے، ایک قول یہ ہے کہ جذعہ وہ بچہ ہے جو ایک سال سے کم ہو۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
کلیب کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہو گئی، تو انہوں نے ایک منادی کو حکم دیا، جس نے پکار کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”(قربانی کے لیے) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الاضاحي 5 (2799)، (تحفة الأشراف: 11211)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الضحایا 12 (4389)، مسند احمد (5/368) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مسنہ (دانتا جانور) ذبح کرو، البتہ جب وہ تم پر دشوار ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ بچہ) ذبح کرو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأضاحي 2 (1962)، سنن ابی داود/الأضاحي 5 (2797)، سنن النسائی/الضحایا 12 (4383)، (تحفة الأشراف: 2715)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/312، 327) (صحیح)» (اس سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے اس لئے البانی صاحب نے اس پر کلام کیا ہے، مزید بحث کے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 2/374 و سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 65 و الإرواء: 2145، وفتح الباری: 10/ 15)
وضاحت: ۱؎: مسنہ: وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہو گیا ہو، گائے بیل اور بھینس جب وہ دو برس پورے کر کے تیسرے میں داخل ہو جائیں، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کر کے دوسرے میں داخل ہو جائیں، جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو، اہل لغت اور شارحین حدیث میں محققین کا یہی قول صحیح ہے، (دیکھئے مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح) ۲؎: جمہوکے نزدیک ایک سالہ بھیڑ کی قربانی جائز ہے، اور سلف کے ایک جماعت کے نزدیک جائز نہیں ہے، ابن حزم نے اس کو جائز کہنے والوں کی خوب تردید کی ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے، جمہور نے جابر کی اس حدیث کو فضل و استحباب پر محمول کیا ہے، مگر یہ بہتر ہے کہ مسنہ نہ ملنے کی صورت میں ذبح کرے، ورنہ نہیں علامہ البانی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں فرماتے ہیں کہ ایک سال کی بکری کی قربانی جائز نہیں، اس کے برخلاف ایک سال کی بھیڑ کی قربانی صحیح احادیث کی وجہ سے کافی ہے (۶/۴۶۳) الأختیارات الفقہیۃ للإمام الألبانی (۱۶۲)۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|