جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مسنہ (دانتا جانور) ذبح کرو، البتہ جب وہ تم پر دشوار ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ بچہ) ذبح کرو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مسنہ: وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہو گیا ہو، گائے بیل اور بھینس جب وہ دو برس پورے کر کے تیسرے میں داخل ہو جائیں، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کر کے دوسرے میں داخل ہو جائیں، جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو، اہل لغت اور شارحین حدیث میں محققین کا یہی قول صحیح ہے، (دیکھئے مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح) ۲؎: جمہوکے نزدیک ایک سالہ بھیڑ کی قربانی جائز ہے، اور سلف کے ایک جماعت کے نزدیک جائز نہیں ہے، ابن حزم نے اس کو جائز کہنے والوں کی خوب تردید کی ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے، جمہور نے جابر کی اس حدیث کو فضل و استحباب پر محمول کیا ہے، مگر یہ بہتر ہے کہ مسنہ نہ ملنے کی صورت میں ذبح کرے، ورنہ نہیں علامہ البانی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں فرماتے ہیں کہ ایک سال کی بکری کی قربانی جائز نہیں، اس کے برخلاف ایک سال کی بھیڑ کی قربانی صحیح احادیث کی وجہ سے کافی ہے (۶/۴۶۳) الأختیارات الفقہیۃ للإمام الألبانی (۱۶۲)۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأضاحي 2 (1962)، سنن ابی داود/الأضاحي 5 (2797)، سنن النسائی/الضحایا 12 (4383)، (تحفة الأشراف: 2715)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/312، 327) (صحیح)» (اس سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے اس لئے البانی صاحب نے اس پر کلام کیا ہے، مزید بحث کے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 2/374 و سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 65 و الإرواء: 2145، وفتح الباری: 10/ 15)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3141
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: علامہ البانی ؒبیان کرتے ہیں کہ حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جذعہ سے مراد بھیڑ کا جذعہ ہے بکری کا جذعہ نہیں۔ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کرلیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ گوشت کی بکری ہے۔ (قربانی کی نہیں۔) انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! میرے پاس ایک بکری کا جذعہ ہے۔ (کیا میں اس کی قربانی دے دوں؟) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قربان کردو لیکن تمھارے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں۔ (صحيح البخاري، الأضاحي، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم لأبي بردة ((ضح بالجذع من المعزولن تجزي عن أحد بعدك) ) حديث: 5556) علامہ البانی نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی روشنی میں بھیڑ کا جذعہ (ایک سال کا بچہ جس کے دانت نہ ٹوٹے ہوں) جائز ہے۔ اور یہ جو از اس شرط کے ساتھ مشروط نہیں کہ دو دانتا (مسنه) دستیاب نہ ہو، بلکہ مطلق جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ دیکھیے: (حاشہ ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث زیر مطالعہ نیز حدیث: 3154 کا فائدہ)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3141
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4383
´مسنہ اور جذعہ کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مسنہ ذبح کرو سوائے اس کے کہ اس کی قربانی تم پر گراں اور مشکل ہو تو تم بھیڑ میں سے جذعہ ذبح کر دو۔“[سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4383]
اردو حاشہ: (1) دو دانتا جانور قربان کرنا مستحب ہے۔ مسنہ نہ ملنے یاعدم استطاعت کی صورت میں بھیڑ کا جذعہ بھی جائز ہے۔ اس کی عمر کے متعلق اہل علم کے مختلف اقوال ہیں کہ کتنی عمر جذعہ قربانی کے قابل ہو گا۔ جمہور اہل علم اور محدثین کا نقطہ نظریہ ہے کہ اس کی عمر سال یا اس کے قریب قریب ہونی چاہیے۔ نیز معلوم ہوا کہ جذعہ، یعنی پکا کھیرا صرف بھیڑ کا قربان ہو سکتا ہے۔ بکری، گائے یا اونٹ وغیرہ کا نہیں۔ حدیث کے الفاظ [فتذبحُوا جذعةً من الضأنِ ] اس کی صریح اور ٹھوس دلیل ہیں۔ اہل علم محدثین وغیرہ کا یہی قول ہے۔ (2) جس جانور کے دانت گر جائیں، اسے عربی زبان میں مسنة يا ثني کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے”دو دانتا“ اور پنجابی میں”دوندا“ کہتے ہیں۔ بعض حضرات نے مسنہ کے معنی”ایک سال“ کا کیا ہے، حالانکہ یہ معنیٰ لغت کے لحاظ سے صحیح ہیں نہ عرف کے لحاظ سے کیونکہ مسنہ لفظ مسن سے بنا ہے جس کے معنیٰ دانت ہوتے ہیں، نہ کہ سے جس کے معنیٰ سال کے ہوتے ہیں۔ عرفاََ بھی بکرا ایک سال میں دو دانتا نہیں ہوتا، اکثر بعد میں ہوتا ہے۔ شاذ و نادر طور پر ایک سال کا بھی ہو سکتا ہے مگر عموماََ نہیں۔ حکم عموم کے لحاظ سے ہوتا۔ ہے۔ جبکہ اصل مقصد دانت کا گرنا ہے نہ کہ عمر، اس لیے کہ دانت گرنے کے لیے کوئی عمر معین نہیں، نیز عمر کا تعین بھی مسکل ہے۔ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص بیچنے کے لیے جھوٹ بھی بول سکتا ہے، مگر دانت گرنا اور اس کی جگہ نیا دانت آنا ایک واضح اور یقینی علامت ہے جس میں فراڈ ممکن نہیں، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ قربانی کا جانور دو دانتا (دوندا) ہو، بکرا ہو یا گائے یا اونٹ اور یہ سب جانور مختلف عمروں میں دو دانتے ہوتے ہیں، البتہ اگر یہ نہ مل سکے یا اس کی استطاعت نہ ہو تو بھیڑ کے جذعہ کی بھی اجازت ہے مگر ضروری ہے کہ وہ موٹا تازہ اور دو دانتے سے قریب ہو۔ بعض لوگوں نے تحدید کی کوشش کی ہے۔ چھ ماہ سے لے کر ایک سال تک کے اقوال ہیں۔ شک و شبہ سے بچنے کے لیے ایک سال سے کم بھیڑ یا دنبہ کرنا چاہیے۔ لغت میں ایک سال کا قول ہی زیادہ مشہور ہے، جمہور اہل علم نے اسے ہی اختیار کیا۔ عقلاََ بھی یہی بات درست ہے کیونکہ دو دانتا نہ ہونے کی صورت میں کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اس سے ملتا جلتا جانور ہی ذبح کیا جائے نہ کہ چھ ماہ کا جو دو دانتے سے بہت کم ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4383
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2797
´کس عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے؟` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مسنہ ۱؎ ہی ذبح کرو، مسنہ نہ پاؤ تو بھیڑ کا جذعہ ذبح کرو۔“[سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2797]
فوائد ومسائل: مذکورہ بالاحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ نے امت کو مسنہ دو دانتا جانور بطور قربانی ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اور وقت اور دشواری کی صورت میں جزع قربانی کرنے کی رخصت عنایت فرمائی، لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ عام حالات میں بھی جبکہ (مسنہ) دو دانتا جانور ملنا مشکل اور دشوار نہ ہو تو جذع بطور قربانی کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ بھیڑ کا جذع قربانی کیا۔ (سنن النسائي، الضحایا، باب المسنة و الجذعة، حدیث:4387) او سنن ابی دائود میں عاصم بن کلیب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔ کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کے ساتھ تھے۔ جن کا نام مجاشع تھا قربانی کے لئے بکریاں تقسیم کی گئیں تو کم ہوگئیں۔ پس انہوں نے ایک منادی کرانے والے کو حکم دیا۔ کہ وہ اعلان کردے کہ رسول للہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔ بلاشبہ جذع (ایک سالہ) مثنی (دو دانتے) کی جگہ کفایت کرتا جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، الضحایا، باب مایجوز في الضحایا من السنن، حدیث: 2799) اور اسی طرح ام بلال رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! بھیڑ کے جزع کی قربانی کرو۔ اس لئے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔ (مسند أحمد:368/6) مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جزع قربانی کیا جا سکتا ہے، البتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی رو سے مسنہ (دو دانتا) جانور قربانی کرنا افضل ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر اس کی بابت فتح الباری میں فرماتے ہیں۔ امام نووی نے جمہور علماء سے نقل کیا کہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پرمحمول کیا ہے۔ (فتح الباري: 20/10)(جذع) یہ صرف بھیڑ (دنبہ چھتر) میں جائز ہے۔ دیگر جانوروں کے بچوں کو اس عمر میں قربانی کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہﷺ نے چند ایک صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو مجبوری کی صورت میں رخصت اور اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ یہ ارشاد فرمایا۔ تیرے بعد کسی اور کے لئے ایسا کرنا درست نہیں۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث: 5556) اور یہ بھی احتمال ہے کہ شروع میں دونوں قسم کا جذع جائز ہو بعد میں بکری کے جذع کی قربانی کرنے سے منع کردیا ہو۔ بھیڑ (دنبہ۔ چھترا) کا جذع بطور قربانی کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہے۔ لیکن اس کی عمر کتنی ہو اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے ایک سال مدت بتلائی ہے۔ بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ۔ امام نووی اس کی بابت فرماتے ہیں۔ جزع کی عمر کے بارے میں سب سے راحج قول یہ ہے کہ اس کی عمر مکمل ایک سال ہو۔ (کتاب المجموع:365/8) حافظ ابن حجر اس کی بابت یوں فرماتے ہیں۔ جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ (دنبہ چھترا) کا جزع وہ ہے۔ جس کی عمر کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو۔ (فتح الباري: 21/10) لہذا جو حضرات بھیڑ (دنبہ۔ چھترا) کی قربانی چاہتے ہوں۔ وہ اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں۔ کہ اس کی عمر کم از کم ایک سال ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2797
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5082
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مُسِنه ذبح کرو، الا یہ کہ تمہارے لیے دشوار ہو (اور نہ ملے) تو جذعہ دنبہ، چھترا کر لو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5082]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ جذعة: احناف اور حنابلہ کے نزدیک جذعہ چھ ماہ کا بکرا یا چھترا ہے اور شوافع کے نزدیک جو سال کا ہو اور بقول امام نووی وهو الاشهر عند اهل السنة وغيرهم، اہل سنت اور دوسروں کے ہاں یہی مشہور ہے۔ اور مسنه، مثنی کو کہتے ہیں، جس کے سامنے کے دانت گرگئے ہوں، احناف کے نزدیک ایک سال کا بکرا مثنی ہو جاتا ہے، اس لیے وہ مسنه کا معنی ایک سال کا کرتے ہیں، حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک سال کے بعد اس کے سامنے کے دانت گر جائیں، جب کہ قربانی کے لیے مثنی کا ہونا ضروری ہے۔ 2۔ دنبہ، چھترا، مینڈھا، ائمہ اربعہ کے نزدیک جذعہ بھی ہو تو قربانی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ بعض روایات میں ہے، جذعہ، دنبہ، چھترا، بہترین قربانی ہے اور مُسنه کے نہ ملنے کی قید استحباب کے لیے ہے، لیکن شوافع کے نزدیک دنبہ، چھترا، بکرا، جذعہ ایک سال کی عمر میں ہو گا اور احناف کے نزدیک بکرا اور دنبہ، چھترا چھ ماہ کا ہو تو جَذَعه ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5082
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح مسلم 5082
... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف مسنہ (دودانتا) جا نور کی قربانی کرو ہاں! اگر تم کو دشوار ہو تو ایک سالہ دنبہ یا مینڈھا ذبح کر دو... [صحيح مسلم 5082]
بکری (یا بھیڑ) کے اس بچے کو ”جذعہ“ کہتے ہیں جو آٹھ یا نو ماہ کا ہو گیا ہو۔ دیکھیے القاموس الوحید (ص 243)
حافظ ابن حجر نے فرمایا: جمہور کے نزدیک بھیڑ (دُنبے) کا جذعہ اسے کہتے ہیں جس نے ایک سال پورا کر لیا ہو۔ [فتح الباري 10/ 5 تحت ح 5547]
بہتر یہی ہے کہ ایک سال کا جذعہ بھیڑ میں سے ہو، ورنہ آٹھ نو ماہ کا بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم تنبیہ بلیغ: صحیح مسلم کی اس حدیث پر عصرِ حاضر کے شیخ البانی رحمہ اللہ کی جرح [الضعيفة: 65، ارواء الغليل: 1145] مردود ہے۔
مستدرک الحاکم (4/ 226 ح 7538 وسندہ صحیح) کی حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسنہ نہ ہونے کی حالت میں جذعہ کی قربانی کافی ہے۔ ……… اصل مضمون ………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 213 اور 214) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 213