كتاب الزكاة کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 3. بَابُ: مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ باب: زکاۃ ادا کیا ہوا مال کنز (خزانہ) نہیں ہے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے غلام خالد بن اسلم کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جا رہا تھا کہ ان سے ایک اعرابی (دیہاتی) ملا، اور آیت کریمہ: «والذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله» (سورة التوبة: 34) ”جو لوگ سونے اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں صرف نہیں کرتے“ کے متعلق ان سے پوچھنے لگا کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جس نے اسے خزانہ بنا کر رکھا، اور اس کی زکاۃ ادا نہیں کی، تو اس کے لیے ہلاکت ہے، یہ آیت زکاۃ کا حکم اترنے سے پہلے کی ہے، پھر جب زکاۃ کا حکم اترا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مالوں کی پاکی کا ذریعہ بنا دیا، پھر وہ دوسری طرف متوجہ ہوئے اور بولے: اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو جس کی تعداد مجھے معلوم ہو، اور اس کی زکاۃ ادا کرتا رہوں، اور اللہ کے حکم کے مطابق اس کو استعمال کرتا رہوں، تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6711، ومصباح الزجاجة: 639)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 4 (1404 تعلیقاً)، التفسیر (4661تعلیقاً) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بہت مالدار آدمی تھے، اس اعرابی (دیہاتی) نے ان سے کچھ مانگا ہو گا، انہوں نے نہ دیا ہو گا تو یہ آیت ان کو شرمندہ کرنے کے لئے پڑھی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر بیان کی کہ یہ آیت اس وقت کی ہے جب زکاۃ کا حکم نہیں اترا تھا، اور مطلق مال کا حاصل کرنا اور اس سے محفوظ رکھنا منع تھا، اس کے بعد زکاۃ کا حکم اترا، اب جس مال حلال میں سے زکاۃ دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے، اگرچہ لاکھوں کروڑوں روپیہ ہو، بلکہ مال حلال اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ اور انسان جو عبادتیں مالداری کی حالت میں کر سکتا ہے جیسے صدقہ و خیرات، اسلامی لشکر کی تیاری، اور تعلیم دین وغیرہ میں مدد مفلسی اور غریبی میں ہونا ناممکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جب مال حلال عنایت فرمائے تو اس کا شکریہ یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق اس کو خرچ کرے، آپ کھائے دوسروں کو کھلائے، صلہ رحمی کرے، مدرسے اور یتیم خانے، مسجدیں اور کنویں بنوا دے، مسافروں اور محتاجوں کی مدد کرے، اور جو مالدار اس طرح حلال مال کو اللہ کی رضا مندی میں صرف کرتا ہے اس کا درجہ بہت بڑا ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ہزار غلام آزاد کئے اور ہزار گھوڑے اللہ کی راہ میں مجاہدین کو دیئے اور اس کے ساتھ وہ دنیا کی حکومت اور عہدے سے نفرت کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کر دی، تو تم نے وہ حق ادا کر دیا جو تم پر تھا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 2 (618)، (تحفة الأشراف: 13591) (ضعیف)» (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2218)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”مال میں زکاۃ کے علاوہ کوئی حق نہیں ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 27 (659، 660)، (تحفة الأشراف: 18026)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الزکاة 13 (1677) (ضعیف منکر)» (سند میں درج ابو حمزہ میمون ا الٔاعور ضعیف راوی ہے، اور شریک القاضی بھی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4383)
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی نے فاطمہ بنت قیس سے اس کے خلاف روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک مال میں اور حق بھی ہیں، سوائے زکاۃ کے، تو یہ حدیث مضطرب ہوئی۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف منكر
|