سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Chapters Regarding Zakat
3. بَابُ : مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ
3. باب: زکاۃ ادا کیا ہوا مال کنز (خزانہ) نہیں ہے۔
Chapter: Wealth on which Zakat is paid is not 'hoarded treasure'
حدیث نمبر: 1787
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا عمرو بن سواد المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، عن ابن لهيعة ، عن عقيل ، عن ابن شهاب ، حدثني خالد بن اسلم مولى عمر بن الخطاب، قال: خرجت مع عبد الله بن عمر، فلحقه اعرابي، فقال له: قول الله عز وجل والذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله سورة التوبة آية 34، قال له ابن عمر : من كنزها فلم يؤد زكاتها فويل له، إنما كان هذا قبل ان تنزل الزكاة، فلما انزلت جعلها الله طهورا للاموال، ثم التفت، فقال:" ما ابالي لو كان لي احد ذهبا اعلم عدده وازكيه، واعمل فيه بطاعة الله عز وجل".
(موقوف) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَلَحِقَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ لَهُ: قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة التوبة آية 34، قَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ : مَنْ كَنَزَهَا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا فَوَيْلٌ لَهُ، إِنَّمَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تُنْزَلَ الزَّكَاةُ، فَلَمَّا أُنْزِلَتْ جَعَلَهَا اللَّهُ طَهُورًا لِلْأَمْوَالِ، ثُمَّ الْتَفَتَ، فَقَالَ:" مَا أُبَالِي لَوْ كَانَ لِي أُحُدٌ ذَهَبًا أَعْلَمُ عَدَدَهُ وَأُزَكِّيهِ، وَأَعْمَلُ فِيهِ بِطَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے غلام خالد بن اسلم کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جا رہا تھا کہ ان سے ایک اعرابی (دیہاتی) ملا، اور آیت کریمہ: «والذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله» (سورة التوبة: 34) جو لوگ سونے اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں صرف نہیں کرتے کے متعلق ان سے پوچھنے لگا کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جس نے اسے خزانہ بنا کر رکھا، اور اس کی زکاۃ ادا نہیں کی، تو اس کے لیے ہلاکت ہے، یہ آیت زکاۃ کا حکم اترنے سے پہلے کی ہے، پھر جب زکاۃ کا حکم اترا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مالوں کی پاکی کا ذریعہ بنا دیا، پھر وہ دوسری طرف متوجہ ہوئے اور بولے: اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو جس کی تعداد مجھے معلوم ہو، اور اس کی زکاۃ ادا کرتا رہوں، اور اللہ کے حکم کے مطابق اس کو استعمال کرتا رہوں، تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بہت مالدار آدمی تھے، اس اعرابی (دیہاتی) نے ان سے کچھ مانگا ہو گا، انہوں نے نہ دیا ہو گا تو یہ آیت ان کو شرمندہ کرنے کے لئے پڑھی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کی تفسیر بیان کی کہ یہ آیت اس وقت کی ہے جب زکاۃ کا حکم نہیں اترا تھا، اور مطلق مال کا حاصل کرنا اور اس سے محفوظ رکھنا منع تھا، اس کے بعد زکاۃ کا حکم اترا، اب جس مال حلال میں سے زکاۃ دی جائے وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے، اگرچہ لاکھوں کروڑوں روپیہ ہو، بلکہ مال حلال اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ اور انسان جو عبادتیں مالداری کی حالت میں کر سکتا ہے جیسے صدقہ و خیرات، اسلامی لشکر کی تیاری، اور تعلیم دین وغیرہ میں مدد مفلسی اور غریبی میں ہونا ناممکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جب مال حلال عنایت فرمائے تو اس کا شکریہ یہ ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق اس کو خرچ کرے، آپ کھائے دوسروں کو کھلائے، صلہ رحمی کرے، مدرسے اور یتیم خانے، مسجدیں اور کنویں بنوا دے، مسافروں اور محتاجوں کی مدد کرے، اور جو مالدار اس طرح حلال مال کو اللہ کی رضا مندی میں صرف کرتا ہے اس کا درجہ بہت بڑا ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ہزار غلام آزاد کئے اور ہزار گھوڑے اللہ کی راہ میں مجاہدین کو دیئے اور اس کے ساتھ وہ دنیا کی حکومت اور عہدے سے نفرت کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6711، ومصباح الزجاجة: 639)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 4 (1404 تعلیقاً)، التفسیر (4661تعلیقاً) (صحیح)» ‏‏‏‏

Khalid bin Aslam, the freed slave of Umar bin Khattab, said: “I went out with Abdullah bin Umar, and a Bedouin met him and recited to him the words of Allah: 'And those who hoard up gold and silver (the money, the Zakah of which has not been paid) and spend them not in the way of Allah.' Ibn Umar Said to him: 'The one who hoards it and does not pay Zakat due on it, woe to him. But this was before the (ruling on) Zakat was revealed. When it was revealed, Allah made it a purification of wealth.' Then he turned away and said: 'I do not mind if I have the (the equivalent of) Uhud in gold, provided that I know how much it is and I pay Zakat on it, and I use it in obedience of Allah, the Mighty and Sublime'”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1787 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1787  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ کی راہ میں خرچ کرنا دین کے اہم مسائل میں سے ہے یہ حکم زکاۃ فرض ہونے سے پہلے بھی تھا اب بھی ہے لیکن پہلے اس کی کم از کم مقدار کا تعین نہیں کیا گیا تھا، اس کے بعد یہ مقدار بھی متعین کر دی گئی۔

(2)
فرض زکاۃ اور دیگر واجب اخراجات کے علاوہ نیکی کی راہ میں خرچ کرنا نفلی عبادت ہے۔

(3)
زکاۃ ادا کرنے سے باقی مال پاک ہو جاتا ہے ورنہ سارا مال ناپاک ہوتا ہے۔

(4)
جائز طریقے سے دولت مند ہونا اللہ کی طرف سے احسان اور نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنے کے لیے ضرورت مند افراد کی مدد کرتے رہنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1787   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.