كتاب الزكاة کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 2. بَابُ: مَا جَاءَ فِي مَنْعِ الزَّكَاةِ باب: زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا اس کا مال قیامت کے دن ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اس کے گلے کا طوق بن جائے گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ثبوت کے لیے قرآن کی یہ آیت پڑھی: «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله» یعنی اور جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے (کچھ) مال دیا ہے، اور وہ اس میں بخیلی کرتے ہیں، (فرض زکاۃ ادا نہیں کرتے) تو اس بخیلی کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ بری ہے، ان کے لیے جس (مال) میں انہوں نے بخیلی کی ہے، وہی قیامت کے دن ان (کے گلے) کا طوق ہوا چاہتا ہے، اور آسمانوں اور زمین کا وارث (آخر) اللہ تعالیٰ ہی ہو گا، اور جو تم کرتے ہو (سخاوت یا بخیلی) اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے (سورۃ آل عمران: ۱۸۰)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن (سورة آل عمران) (3012)، سنن النسائی/الزکاة 2 (2443)، (تحفة الأشراف: 9237)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/377) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اونٹ، بکری اور گائے والا اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، تو اس کے جانور قیامت کے دن اس سے بہت بڑے اور موٹے بن کر آئیں گے جتنے وہ تھے، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے اور کھروں سے روندیں گے، جب اخیر تک سب جا نور ایسا کر چکیں گے تو پھر باربار تمام جانور ایسا ہی کرتے رہیں گے یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 43 (1460)، الأیمان والنذور 3 (6638)، صحیح مسلم/الزکاة 9 (990)، سنن الترمذی/الزکاة1 (617)، سنن النسائی/الزکاة 2 (2442)، 11 (2458)، (تحفة الأشراف: 11981)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/152، 158) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن اونٹوں کی زکاۃ نہیں دی گئی وہ آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے، اور گائیں اور بکریاں آئیں گی وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور اسے سینگوں سے ماریں گی، اور اس کا خزانہ ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اپنے مالک سے قیامت کے دن ملے گا، اس کا مالک اس سے دور بھاگے گا، پھر وہ اس کے سامنے آئے گا تو وہ بھاگے گا، اور کہے گا: آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، آخر مالک اپنے ہاتھ کے ذریعہ اس سے اپنا بچاؤ کرے گا لیکن وہ اس کا ہاتھ ڈس لے گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14041)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 3 (1402)، الجہاد 189 (3073)، تفسیر براء ة 6 (4659)، الحیل 3 (9658)، سنن النسائی/الزکاہ 6 (2450)، موطا امام مالک/الزکاة 10 (22)، مسند احمد (2/316، 379، 426) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ ہاتھ ہی سے زکاۃ نہیں دی گئی تو پہلے اسی عضو کو سزا دی جائے گی، خزانہ (کنز) سے مراد یہاں وہی مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہیں کی گئی جیسے آگے آتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|