كتاب الزكاة کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل 26. بَابُ: مَنْ سَأَلَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى باب: مالدار ہوتے ہوئے (بلا ضرورت) مانگنے پر وارد وعید کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لوگوں سے مال بڑھانے کے لیے مانگا، تو وہ جہنم کے انگارے مانگتا ہے، چاہے اب وہ زیادہ مانگے یا کم مانگے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 35 (1041)، (تحفة الأشراف: 14910)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/331) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ و خیرات کسی مالدار یا ہٹے کٹے صحت مند آدمی کے لیے حلال نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 90 (2598)، (تحفة الأشراف: 12910)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/377، 389) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سوال کرے اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو اسے بے نیاز کرتا ہو، تو یہ سوال قیامت کے دن اس کے چہرے پہ زخم کا نشان بن کر آئے گا“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کتنا مال آدمی کو بے نیاز کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچاس درہم یا اس کی مالیت کا سونا“ ۱؎۔ ایک شخص نے سفیان ثوری سے کہا: شعبہ تو حکیم بن جبیر سے روایت نہیں کرتے؟ سفیان ثوری نے کہا کہ یہ حدیث ہم سے زبید نے بھی محمد بن عبدالرحمٰن کے واسطے سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة 23 (1626)، سنن الترمذی/الزکاة 22 (650)، سنن النسائی/الزکاة 87 (2593)، (تحفة الأشراف: 9387)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/388، 441)، سنن الدارمی/الزکاة 5 1 (1680) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوداود کی روایت میں ہے: «غنا» کی حد یہ ہے کہ آدمی کے پاس صبح و شام کا کھانا ہو، اور ایک روایت میں ہے کہ ایک اوقیہ کا مالک ہو، اور اس روایت میں پچاس درہم مذکور ہے، شافعی نے دوسرے قول کو لیا ہے اور احمد اور اسحاق اور ابن مبارک نے پہلے قول کو، بعض لوگوں نے تیسرے قول کو اور ابوحنیفہ نے کہا جو دو سو درہم کا مالک ہے یا اس قدر مالیت کا اسباب اس کے پاس ہے اس کے لیے سوال صحیح نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|