كتاب المساجد والجماعات کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل 15. بَابُ: الأَبْعَدُ فَالأَبْعَدُ مِنَ الْمَسْجِدِ أَعْظَمُ أَجْرًا باب: مسجد سے جو جنتا زیادہ دور ہو گا اس کو مسجد میں آنے کا ثواب اسی اعتبار سے زیادہ ہو گا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسجد میں جو جتنا ہی دور سے آتا ہے، اس کو اتنا ہی زیادہ اجر ملتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 49 (556)، (تحفة الأشراف: 13597)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/351، 428) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک انصاری شخص کا مکان انتہائی دوری پر تھا، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کی کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی، مجھے اس کی یہ مشقت دیکھ کر اس پر رحم آیا، اور میں نے اس سے کہا: اے ابوفلاں! اگر تم ایک گدھا خرید لیتے جو تمہیں گرم ریت پہ چلنے، پتھروں کی ٹھوکر اور زمین کے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھتا (تو اچھا ہوتا)! اس انصاری نے کہا: اللہ کی قسم میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے کسی گوشے سے ملا ہو، اس کی یہ بات مجھے بہت ہی گراں گزری ۱؎ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور اس سے پوچھا، تو اس نے آپ کے سامنے بھی وہی بات کہی، اور کہا کہ مجھے نشانات قدم پر ثواب ملنے کی امید ہے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس ثواب کی تم امید رکھتے ہو وہ تمہیں ملے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 49 (663)، سنن ابی داود/الصلاة 49 (557)، (تحفة الأشراف: 64)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/133) سنن الدارمی/الصلاة 60 (1321) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی کہ یہ کیسا مسلمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس رہنا پسند نہیں کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے پرانے گھروں کو جو مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھے چھوڑ کر مسجد نبوی کے قریب آ رہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ویرانی کو مناسب نہ سمجھا، اور فرمایا: ”بنو سلمہ! کیا تم اپنے نشانات قدم میں ثواب کی نیت نہیں رکھتے؟“، یہ سنا تو وہ وہیں رہے جہاں تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 654)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 33 (655)، مسند احمد (3/106، 182، 263) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انصار کے مکانات مسجد نبوی سے کافی دور تھے، ان لوگوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب آ جائیں تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «ونكتب ما قدموا وآثارهم» ”ہم ان کے کئے ہوئے اعمال اور نشانات قدم لکھیں گے“ (يسين: 12) تو وہ اپنے مکانوں میں رک گئے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6127، ومصباح الزجاجة: 297) (صحیح)» (سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے)
وضاحت: ا؎: ان حدیثوں کے خلاف وہ حدیث نہیں ہے کہ گھر کی نحوست یہ ہے کہ وہاں اذان سنائی نہ دے، کیونکہ یہ نحوست اس وجہ سے ہے کہ اکثر ایسے گھر میں رہنے سے جماعت چھوٹ جاتی ہے، نماز کا وقت معلوم نہیں ہوتا، اور ان حدیثوں میں اس شخص کی فضیلت ہے جو دور سے مسجد آئے، اور جماعت میں شریک ہو، اور ابن کثیر نے تصریح کی ہے کہ جو گھر مسجد سے زیادہ دور ہو وہی افضل ہے، امام مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہمارے گھر مسجد سے زیادہ دور تھے ہم نے چاہا کہ ان کو بیچ ڈالیں اور مسجد کے قریب آ رہیں تو نبی اکرم ﷺ نے ہم کو منع کیا، اور فرمایا: ”تم کو ہر قدم پر ایک درجہ ملے گا“، اور امام احمد نے روایت کی ہے کہ مسجد سے دور جو گھر ہو اس کی فضیلت مسجد سے قریب والے گھر پر ایسی ہے جیسے سوار کی فضیلت بیٹھے ہوئے شخص پر۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|