كتاب المساجد والجماعات کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل 12. بَابُ: الصَّلاَةِ فِي أَعْطَانِ الإِبِلِ وَمُرَاحِ الْغَنَمِ باب: اونٹوں اور بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں بکریوں اور اونٹوں کے باڑوں کے علاوہ کوئی جگہ میسر نہ ہو تو بکری کے باڑے میں نماز پڑھو، اونٹ کے باڑے میں نماز نہ پڑھو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14555، 14559، ومصباح الزجاجة: 288)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 142 (348) مختصراً، سنن الدارمی/الصلاة 112 (1431) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھو، اور اونٹوں کے باڑ میں نماز نہ پڑھو، کیونکہ ان کی خلقت میں شیطنت ہے“۔
تخریج الحدیث: «نفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9651، ومصباح الزجاجة: 289)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/المساجد 41 (736)، وذکر أعطان الإبل، مسند احمد (4/85، 86، 5/54، 55) (صحیح)» (اس حدیث کا شاہد براء رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو ابو داود: 184 - 493 میں ہے، لیکن شاہد نہ ملنے کی وجہ سے «فإنها خلقت من الشياطين» کے لفظ کو البانی صاحب نے ضعیف کہا ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2210، و تراجع الألبانی: رقم: 298)۔
وضاحت: ۱؎: فؤاد عبدالباقی کے نسخہ میں اور ایسے ہی پیرس کے مخطوطہ میں «هشيم» کے بجائے «أبو نعيم» ہے، جو غلط ہے۔ ۲؎: شیطنت سے مراد شرارت ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ اونٹ شیطان سے پیدا ہوا، ورنہ وہ حلال نہ ہوتا اور نبی اکرم ﷺ اس کے اوپر نماز ادا نہ کرتے، لیکن شافعی کی روایت میں یوں ہے کہ جب تم اونٹوں کے باڑہ میں ہو اور نماز کا وقت آ جائے تو وہاں سے نکل جاؤ کیونکہ اونٹ جن ہیں، اور جنوں سے پیدا ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اونٹوں میں شرارت کا مادہ زیادہ ہے، اور یہی وجہ ہے وہاں نماز پڑھنا منع ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
معبد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹ کے باڑے میں نماز نہ پڑھی جائے، اور بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لی جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3813، ومصباح الزجاجة: 290)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/405، 5/102) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|