(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا عباد بن عباد المهلبي ، حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي بن كعب ، قال: كان رجل من الانصار بيته اقصى بيت بالمدينة، وكان لا تخطئه الصلاة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فتوجعت له فقلت: يا فلان لو انك اشتريت حمارا يقيك الرمض ويرفعك من الوقع ويقيك هوام الارض، فقال: والله ما احب ان بيتي بطنب بيت محمد صلى الله عليه وسلم، قال: فحملت به حملا حتى اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فدعاه، فساله، فذكر له مثل ذلك، وذكر انه يرجو في اثره، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن لك ما احتسبت". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَار بَيْتُهُ أَقْصَى بَيْتٍ بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَ لَا تُخْطِئُهُ الصَّلَاةُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَتَوَجَّعْتُ لَهُ فَقُلْتُ: يَا فُلَانُ لَوْ أَنَّكَ اشْتَرَيْتَ حِمَارًا يَقِيكَ الرَّمَضَ وَيَرْفَعُكَ مِنَ الْوَقَعِ وَيَقِيكَ هَوَامَّ الْأَرْضِ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ بَيْتِي بِطُنُبِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحَمَلْتُ بِهِ حِمْلًا حَتَّى أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَدَعَاهُ، فَسَأَلَهُ، فَذَكَرَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَذَكَرَ أَنَّهُ يَرْجُو فِي أَثَرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لَكَ مَا احْتَسَبْتَ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک انصاری شخص کا مکان انتہائی دوری پر تھا، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کی کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی، مجھے اس کی یہ مشقت دیکھ کر اس پر رحم آیا، اور میں نے اس سے کہا: اے ابوفلاں! اگر تم ایک گدھا خرید لیتے جو تمہیں گرم ریت پہ چلنے، پتھروں کی ٹھوکر اور زمین کے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھتا (تو اچھا ہوتا)! اس انصاری نے کہا: اللہ کی قسم میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے کسی گوشے سے ملا ہو، اس کی یہ بات مجھے بہت ہی گراں گزری ۱؎ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور اس سے پوچھا، تو اس نے آپ کے سامنے بھی وہی بات کہی، اور کہا کہ مجھے نشانات قدم پر ثواب ملنے کی امید ہے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس ثواب کی تم امید رکھتے ہو وہ تمہیں ملے گا“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کہ یہ کیسا مسلمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس رہنا پسند نہیں کرتا ہے۔
It was narrated that Ubayy bin Ka'b said:
"There was a man among the Ansar whose house was the furthest house in Al-Madinah, yet he never missed prayer with the Messenger of Allah. I felt sorry for him and said: 'O so-and-so, why do you not buy a donkey to spare yourself the heat of the scorching sand, to carry over the stony ground, and to keep you away from the vermin on the ground?' He said: 'By Allah! I do not want to live so close to Muhammed.' This troubled me until I came to the house of the Prophet and mentioned that to him. He called (the man) and asked him, and he said something similar, and said that he was hoping for the reward for his steps. The Messenger of Allah said, 'You will have that (reward) that you sought.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث783
اردو حاشہ: (1) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نیکیاں حاصل کرنے کا کس قدر شوق رکھتے تھے یہ واقعہ اس کی ایک ادنٰی مثال ہے کہ دور دراز راستے کی مشقت صرف اس لیے گوارا ہے کہ دور سے چل کر آنے میں ثواب زیادہ ہوگا۔
(2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی باہمی ہمدردی بھی قابل اتباع ہے کہ ایک صحابی اپنے ساتھی کی مشقت کو اس طرح محسوس کرتا ہے گویا وہ مشقت خود اسے لاحق ہے اس لیے اسے مناسب مشورہ دیتا ہے۔
(3) مسلمان کی خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے اچھا مشورہ دیا جائے اگر چہ اس نے مشورہ طلب نہ کیا ہو۔
(4) حضرت ابی نے اس صحابی کی بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی تاکہ آپ ﷺ اسے نصیحت فرمائیں اس لیے اگر کسی کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ فلاں بزرگ کی نصیحت پوری کرلے گا تو اس بزرگ کو اس ساتھی کی غلطی اصلاح کی نیت سے بتا دینا جائز ہے۔ البتہ اسے ذلیل کرنے کی نیت سے بتانا درست نہیں۔
(5) کسی کی شکایت پہنچے تو تحقیق کیے بغیر اس کے بارے میں کوئی نامناسب رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔ بہتر ہے کہ خود نامناسب الفاظ کہنے والے سے دریافت کرلیا جائے کہ اس کا ان الفاظ سے کیا مطلب ہے؟ (6) مومن کی اچھی نیت ثواب کا باعث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 783
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1514
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی تھا، میرے علم میں مسجد سے اس سے زیادہ کسی کا فاصلہ نہ تھا۔ اور اس کی کوئی نماز (باجماعت) قضاء نہیں ہوتی تھی تو اسے کسی نے کہا یا میں نے کہا: اے کاش آپ تاریکی اور گرمی میں آسانی کے لیے گدھا خرید لیں تو اس نے کہا: مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر مسجد کے پڑوس میں ہو، میں چاہتا ہوں میرا مسجد تک چل کر جانا اور جب میں گھر لوٹوں تو میرا لوٹنا لکھا جائے تو رسول اللہ ﷺ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1514]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انسان کا رات کی تاریکی میں اور گرمیوں کی شدت میں گھر سے مسجد تک جانا آنا لکھا جاتا ہے اور ان چیزوں (گرمی، تاریکی، آمدورفت) کا انسان کو اجرو ثواب ملتا ہے اس لیے مسجد سے مسافت کے بعد اور دوری سے ڈر کر یا اس کو بہانا بنا کر گھر میں نماز پڑھ لینا درست نہیں ہے نماز کے لیے جس قدر مشقت برداشت کرے گا۔ یا دور سے آئے گا اتنا ہی اجرو ثواب میں اضافہ ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1514
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1516
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک انصاری آدمی تھا، اس کا گھر مدینہ میں سب سے زیادہ دور گھر تھا اور اس کی کوئی نماز رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں پڑھنے سے نہیں رہتی تھی، ہم نے اس کے لیے درد محسوس کیا (اس کی تکلیف کا ہمیں احساس ہوا) تو میں نے اسے کہا، اے فلاں! اے کاش، آپ ایک گدھا خرید لیں، جو آپ کو گرمی اور زمین کے زہریلے کیڑوں سے بچائے، اس نے کہا، ہاں، اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرا گھر طنابوں (رسیوں) کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1516]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) هَوَامِّ: هَامة کی جمع ہے، زہریلے کیڑے مکوڑوں کو کہتے ہیں۔ (2) مُطَنَّب: طَنَب سے ماخوذ ہے۔ خیمے کو رسیوں سے باندھنا۔ مقصد ہے کہ میرا گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے متصل ہوتا۔ (3) حَمَلْتُ بِهِ حِمْلاً: میں نے سینہ پر بوجھ اٹھایا، مقصد یہ ہے کہ اس کے یہ الفاظ میرے لیے بہت ناگواری کا باعث بنے۔ (4) فِي أَثَرِهِ: اس چال اور آمدورفت کے سبب۔ فوائد ومسائل: انصاری صحابی کا مقصد یہ تھا میرا گھر مسجد سے دور ہے مجھے آنے جانے میں مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے اور میں یہ مشقت محض اس امید پر برداشت کرتا ہوں کہ مجھے اس کا اجر ملے گا۔ میں اپنے اجرو ثواب سے کسی صورت میں محروم نہیں ہونا چاہتا، یہ نہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب و جوار کو پسند نہیں کرتا تھا۔