كتاب المساجد والجماعات کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل 19. بَابُ: لُزُومِ الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارِ الصَّلاَةِ باب: مسجد میں بیٹھ کر نماز کے انتظار کی فضیلت۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو کر نماز کے لیے رکے رہتا ہے تو وہ نماز ہی میں رہتا ہے، اور فرشتے اس شخص کے لیے اس وقت تک دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اس جگہ بیٹھا رہتا ہے جس جگہ اس نے نماز ادا کی ہے، وہ کہتے ہیں: اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر، اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما، یہ دعا یوں ہی جاری رہتی ہے جب تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے، اور جب تک وہ ایذا نہ دے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12548)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 35 (176)، الصلاة 61 (445)، 87 (477)، الأذان 30 (647)، 36 (659)، البیوع 49 (2119)، بدء الخلق (3229) 7 (649)، صحیح مسلم/المساجد 49 (649)، سنن ابی داود/الصلاة 20 (469)، سنن الترمذی/الصلاة 129 (330)، سنن النسائی/المساجد 40 (734)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 18 (54)، مسند احمد (2/266، 289، 312، 394، 415، 421، 486، 502) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: فرشتے اس کے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے، اگر وہ زبان یا ہاتھ سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچا دیتا ہے تو فرشتوں کی دعا بند ہو جاتی ہے، اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لئے مسجد میں ہمیشہ باوضو رہنا چاہئے، اگرچہ بے وضو بھی رہ سکتا ہے، مگر یہ فضیلت حاصل نہ ہو گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان مسجد کو نماز اور ذکر الٰہی کے لیے اپنا گھر بنا لے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایسا خوش ہوتا ہے جیسے کہ کوئی شخص بہت دن غائب رہنے کے بعد گھر واپس لوٹے، تو گھر والے خوش ہوتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13389، ومصباح الزجاجة: 300)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/307، 328، 340، 453) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، کچھ لوگ واپس چلے گئے، اور کچھ لوگ پیچھے مسجد میں رہ گئے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی کے ساتھ آئے، آپ کا سانس پھول رہا تھا، اور آپ کے دونوں گھٹنے کھلے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوش ہو جاؤ! یہ تمہارا رب ہے، اس نے آسمان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا، اور تمہارا ذکر فرشتوں سے فخریہ فرما رہا ہے اور کہہ رہا ہے: فرشتو! میرے بندوں کو دیکھو، ان لوگوں نے ایک فریضے کی ادائیگی کر لی ہے، اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8947، ومصباح الزجاجة: 301)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/ 197، 208) (صحیح) (ملا حظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 661)»
وضاحت: ۱؎: تیز تیز آنے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ کا سانس پھول گیا اور گھٹنے کھل گئے، اس سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ گھٹنے ستر میں داخل نہیں، اس حدیث میں اللہ تعالی کا کلام کرنا، نزول فرمانا، خوش ہونا جیسی صفات کا ذکر ہے، ان کو اسی طرح بلا تاویل و تحریف ماننا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی شخص کو مسجد میں (نماز کے لیے) پابندی سے آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایمان کی شہادت دو“، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله» ”اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پہ ایمان رکھتے ہیں“ (سورة التوبة: ۱۸)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإیمان 9 (2617)، تفسیر القرآن 10 (3093)، (تحفة الأشراف: 4050)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/68، 76)، سنن الدارمی/الصلاة 23 (1259) (ضعیف)» (اس سند میں رشدین بن سعد ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: المشکاة: 723)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|