كتاب المساجد والجماعات کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل 2. بَابُ: تَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ باب: مساجد کے سجانے اور اونچی بنانے کا بیان۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت قائم ہو گی، جب لوگ مسجدوں کے بارے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں گے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 12 (449)، سنن النسائی/المساجد 2 (690)، (تحفة الأشراف: 951، ومصباح الزجاجة: 277)، مسند احمد (3/134، 145، 230، 283)، سنن الدارمی/الصلاة 123 (1448) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں لوگ کہیں گے کہ ہماری مسجد فلاں کی مسجد سے زیادہ عمدہ، بلند اور پرشکوہ ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجدوں پر فخر کرنا قیامت کی نشانی ہے، لیکن مسجدوں کو آراستہ اور بلند کرنے کی ممانعت نہیں نکلتی، دوسری حدیثوں سے اس امر کی کراہت ثابت ہے، لیکن علماء نے کہا ہے کہ اس زمانہ میں مصلحتاً مساجد کی بلندی پر سکوت کرنا چاہئے کیونکہ یہود اور نصاری نے اپنے گرجاؤں کو بہت بلند اور عمدہ بنانا شروع کیا ہوا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تم لوگ میرے بعد مسجدوں کو ویسے ہی بلند اور عالی شان بناؤ گے جس طرح یہود نے اپنے گرجا گھروں کو، اور نصاریٰ نے اپنے کلیساؤں کو بنایا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6208)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 12 (448) (ضعیف)» (سند میں جبارہ بن مغلس اور لیث بن أبی سلیم ضعیف ہیں، لیکن یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً ثابت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2733)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی قوم کے اعمال خراب ہوئے تو اس نے اپنی مسجدوں کو سنوارا سجایا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10620، ومصباح الزجاجة: 278) (ضعیف)» (جبارہ ضعیف ہے، اور ابو سحاق مدلس اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ! آپ کا ارشاد گرامی کتنا درست اور صحیح ہے، اور سچی بات ہے کہ جب سے مسلمانوں نے بلا ضرورت مسجدوں کی زیب و زینت اور آراستگی میں مبالغہ شروع کیا اس وقت سے ان کے اعمال خراب ہو گئے، علم دین کی تعلیم کم ہو گئی، دینی مدرسے سے لوگوں کی دلچسپی کم ہو گئی، دینی طالب علموں کے تعلیمی اخراجات کے بارے میں لوگ غفلت کا شکار ہیں، جہالت کا بازار گرم ہے، بدعات و خرافات اور مشرکانہ افعال و اعمال کا رواج ہو گیا ہے، لیکن مسجدوں کی آرائش روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، مساجد کی بڑی آرائش اور زینت تو یہی ہے کہ وہاں اول وقت اذان دی جائے، امام دیندار اور عالم ہو، نماز سنت کے موافق، شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کی جائے، روشنی بقدر ضرورت کی جائے کہ نمازیوں کو اندھیرے کی تکلیف نہ ہو، اس سے زیادہ جو روپیہ بچے وہ علم دین کی ترقی میں صرف کیا جائے، دینی کتابیں چھاپی جائیں، دینی واعظوں کو تنخواہ دی جائے کہ وہ مسلمانوں کو دین کی تعلیم دیں اور کفار و مشرکین کو اسلام کی دعوت دیں، طالب علموں کی خبر گیری کی جائے، مدرسین رکھے جائیں، مدرسے کھلوائے جائیں، اگر یہ جانتے ہوئے بھی کوئی شخص اپنا روپیہ پیسہ ان کاموں میں صرف نہ کرے، اور مسجد کے نقش و نگار اور آراستگی اور روشنی اور فرش میں فضول خرچی کرے تو وہ گناہ گار ہوگا، اور آخرت میں اس سے باز پرس ہوگی کیونکہ اس نے ظاہر کو آراستہ کیا اور باطن کو خراب کیا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
|