كتاب المساجد والجماعات کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل 17. بَابُ: التَّغْلِيظِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ باب: جماعت سے پیچھے رہنے پر سخت وعید کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا پختہ ارادہ ہوا کہ نماز پڑھنے کا حکم دوں اور اس کے لیے اقامت کہی جائے، پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، اور میں کچھ ایسے لوگوں کو جن کے ساتھ لکڑیوں کا گٹھر ہو، لے کر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے ہیں، اور ان کے ساتھ ان کے گھروں کو آگ لگا دوں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 47 (548)، (تحفة الأشراف: 12527)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 29 (644)، 34 (657)، الخصومات 5 (2420)، الأحکام 52 (7224)، صحیح مسلم/المساجد 42 (651)، سنن النسائی/الإمامة 49 (849)، موطا امام مالک/الجماعة 1 (3)، مسند احمد (2/244، 376، 489، 480، 531)، سنن الدارمی/الصلاة 54 (1310) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابن القیم کہتے ہیں: ظاہر ہے کہ گھر کا جلانا صغیرہ گناہ پر نہیں ہوتا، تو جماعت کا ترک کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے شروع سے اپنی وفات تک جماعت پر مواظبت فرمائی، اور جس نے اذان سنی گرچہ وہ اندھا ہو اس کو جماعت کے ترک کی اجازت نہ دی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں بوڑھا اور نابینا ہوں، میرا گھر دور ہے اور مجھے مسجد تک لانے والا میرے مناسب حال کوئی آدمی بھی نہیں ہے، تو کیا آپ میرے لیے (جماعت سے غیر حاضری کی) کوئی رخصت پاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اذان سنتے ہو؟“، میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 47 (552)، (تحفة الأشراف: 10788)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الإمامة 50 (852)، مسند احمد (3/423) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے جماعت کی بڑی اہمیت و تاکید ثابت ہوتی ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت سے غیر حاضر رہنے کی اجازت نہ دی، حالانکہ وہ اندھے تھے، اور انہوں نے کہا کہ میرے پاس کوئی آدمی بھی نہیں ہے جو مجھ کو پکڑ کر لائے، کیونکہ ان کا گھر مسجد سے بہت دور نہ تھا، وہ اذان کی آواز سنتے تھے اور بغیر آدمی کے آ سکتے تھے، اور بعضوں نے کہا: حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمہارے لیے جماعت کا ترک جائز نہیں کیونکہ اندھا ہونا جماعت سے معافی کے لئے قوی عذر ہے، اور آپ ﷺ نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کی جماعت ان کے اندھے ہونے کی وجہ سے معاف کی، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے لئے ایسی رخصت نہیں پاتا کہ تم جماعت میں حاضر نہ ہو، اور جماعت کا ثواب نہ پاؤ، «واللہ اعلم» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اذان سنی لیکن مسجد میں نہیں آیا تو اس کی نماز نہیں ہو گی، الا یہ کہ کوئی عذر ہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 47 (551)، (تحفة الأشراف: 5560) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم خبر دیتے ہیں کہ ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ”لوگ نماز باجماعت چھوڑنے سے ضرور باز آ جائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر ان کا شمار غافلوں میں ہونے لگے گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجمعة 12 (865)، سنن النسائی/الجمعة 2 (1371)، (تحفة الأشراف: 6696)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/239، 254، 335، 2/84)، سنن الدارمی/الصلاة 205 (1611) (صحیح)» (صحیح مسلم میں یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور اس میں «الجمعات» ہے، جس کو البانی صاحب نے محفوظ بتایا ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2967)
وضاحت: ۱؎: یعنی ایمان کا نور ان کے دلوں سے جاتا رہے گا، اور عبادت کی لذت اور حلاوت ان کو حاصل نہ ہو گی، یا عبادت کا اثر ان کے دلوں پر نہ ہو گا، اور دل میں غفلت اور تاریکی بھر جائے گی، یہ فرمودہ آپ ﷺ کا مجرب ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ جماعتوں کے چھوڑنے سے ضرور باز رہیں، ورنہ میں ان کے گھروں کو آگ لگا دوں گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 90، ومصباح الزجاجة: 298)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/206) (صحیح)» (سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور عثمان مجہول اور زبرقان کا سماع اسامہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن حدیث سابقہ شواہد سے صحیح ہے، تراجع الألبانی: رقم: 381)
وضاحت: ۱؎: اس باب کی احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ نماز جماعت فرض ہے، جماعت کی حاضری بہت ضروری ہے جماعت کے ترک کی رخصت صرف چند صورتوں میں ہے: سخت سردی، بارش کی رات، کوئی سخت ضرورت ہو جیسے بھوک لگی ہو اور کھانا تیار ہو، پیشاب و پاخانہ کی حاجت ہو بصورت دیگر سستی یا کاہلی کے سبب جماعت ترک کرنا جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|