سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
Chapters: The Book of the Sunnah
35. بَابُ: فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
Chapter: Concerning what the Jahmiyyah denied (i.e., seeing Allah in the Hereafter, etc.)
حدیث نمبر: 177
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، ووكيع . ح وحدثنا علي بن محمد ، حدثنا خالي يعلى ، ووكيع ، وابو معاوية ، قالوا: حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم ، عن جرير بن عبد الله ، قال: كنا جلوسا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فنظر إلى القمر ليلة البدر، فقال:" إنكم سترون ربكم كما ترون هذا القمر، لا تضامون في رؤيته، فإن استطعتم ان لا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس وقبل غروبها فافعلوا" ثم قرا وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب سورة ق آية 39.
(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى ، وَوَكِيعٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ، لَا تَضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا" ثُمَّ قَرَأَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ سورة ق آية 39.
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے چودہویں کے چاند کی طرف دیکھا، اور فرمایا: عنقریب تم لوگ اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو کہ اس کے دیکھنے میں تمہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہو رہی ہے، لہٰذا اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز سے پیچھے نہ رہو تو ایسا کرو۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «وسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل الغروب» اپنے رب کی تسبیح و تحمید بیان کیجئے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے (سورة ق: 39) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 16 (554)، وتفسیر ق 2 (4851)، والتوحید 24 (7434)، صحیح مسلم/المساجد 37 (633)، سنن ابی داود/السنة 20 (4729)، سنن الترمذی/صفة الجنة 16 (2551)، سنن النسائی/الکبری/الصلاة 57 (460)، (تحفة الأشراف: 3223)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/360، 362، 365) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے اہل ایمان کے لئے جنت میں اللہ تعالیٰ کی رویت ثابت ہوتی ہے، نیز اللہ رب العزت کے لئے علو اور بلندی کی صفت کہ وہ سب سے اوپر آسمان کے اوپر ہے، نیز اس حدیث سے فجر اور عصر کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، آیت کریمہ میں تسبیح سے مراد صلاۃ (نماز) ہے۔

It was narrated that Jarir bin 'Abdullah said: "We were sitting with the Messenger of Allah. He looked at the moon, which was full, and said, 'Indeed, you will see your Lord as you see this moon. You will not feel the slightest inconvenience and overcrowding in seeing Him. If you have the power not to be overcome and to say this prayer before the sun rises and before it sets, then do that.' Then he recited: "And glorify the praises of your Lord, before the rising of the sun and before (its) setting."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 178
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا يحيى بن عيسى الرملي ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تضامون في رؤية القمر ليلة البدر"، قالوا: لا، قال:" فكذلك لا تضامون في رؤية ربكم يوم القيامة".
(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عِيسَى الرَّمْلِيُّ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَضَامُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ"، قَالُوا: لَا، قَالَ:" فَكَذَلِكَ لَا تَضَامُّونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں چودھویں رات کو چاند دیکھنے میں مشقت ہوتی ہے؟ صحابہ نے کہا: جی نہیں، فرمایا: اسی طرح قیامت کے دن تمہیں اپنے رب کی زیارت میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12480)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاذان 129 (806)، الرقاق 52 (6573)، التوحید 24 (4737)، صحیح مسلم/الإیمان 81 (183) الزھد 1 (2968)، سنن ابی داود/السنة 20 (4729)، سنن الترمذی/صفة الجنة 16 (2554)، سنن الدارمی/الرقاق 81 (2843) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah said: 'Do you crowd one another in order to see the moon on the night when it is full?' They said: 'No.' He said: 'And you will not crowd one another in order to see your Lord on the Day of Resurrection.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 179
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا محمد بن العلاء الهمداني ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن الاعمش ، عن ابي صالح السمان ، عن ابي سعيد ، قال: قلنا: يا رسول الله انرى ربنا؟ قال:" تضامون في رؤية الشمس في الظهيرة في غير سحاب"، قلنا: لا، قال:" فتضارون في رؤية القمر ليلة البدر في غير سحاب"، قالوا: لا، قال:" إنكم لا تضارون في رؤيته إلا كما تضارون في رؤيتهما".
(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَرَى رَبَّنَا؟ قَالَ:" تَضَامُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ فِي غَيْرِ سَحَابٍ"، قُلْنَا: لَا، قَالَ:" فَتَضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فِي غَيْرِ سَحَابٍ"، قَالُوا: لَا، قَالَ:" إِنَّكُمْ لَا تَضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ إِلَّا كَمَا تَضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِهِمَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ٹھیک دوپہر میں سورج دیکھنے میں کوئی دقت اور پریشانی محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو؟، ہم نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم چودہویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی رکاوٹ محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو؟، ہم نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج و چاند کو دیکھنے کی طرح تم اپنے رب کے دیدار میں بھی ایک دوسرے سے مزاحمت نہیں کرو گے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4019)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/16) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کے لئے صفت علو اور مومنین کے لئے اس کی رؤیت ثابت ہوتی ہے، اور اس میں جہمیہ اور معتزلہ دونوں کا ردو ابطال ہوا، جو اہل ایمان کے لئے اللہ تعالی کی رؤیت نیز اللہ تعالیٰ کے لئے علو اور بلندی کی صفت کے منکر ہیں۔

It was narrated that Abu Sa'eed said: "We said: 'O Messenger of Allah! Will we see our Lord?' He said: 'Do you crowd one another to see the sun at mid-day when there are no clouds?' We said: 'No.' He said: 'Do you crowd one another to see the moon on the night when it is full and there are no clouds?' We said: 'No.' He said: 'You will not crowd one another to see Him, just as you do not crowd to see these two things.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 180
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا حماد بن سلمة ، عن يعلى بن عطاء ، عن وكيع بن حدس ، عن عمه ابي رزين ، قال: قلت: يا رسول الله اكلنا يرى لله يوم القيامة؟ وما آية ذلك في خلقه؟ قال:" يا ابا رزين اليس كلكم يرى القمر مخليا به"؟ قال: قلت: بلى، قال:" فالله اعظم وذلك آيته في خلقه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ وَكِيعِ بْنِ حُدُسٍ ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَكُلُّنَا يَرَى للَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ وَمَا آيَةُ ذَلِكَ فِي خَلْقِهِ؟ قَالَ:" يَا أَبَا رَزِينٍ أَلَيْسَ كُلُّكُمْ يَرَى الْقَمَرَ مُخْلِيًا بِهِ"؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ:" فَاللَّهُ أَعْظَمُ وَذَلِكَ آيَتُهُ فِي خَلْقِهِ".
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن دیکھیں گے؟ اور اس کی اس کے مخلوق میں کیا نشانی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابورزین! کیا تم میں سے ہر ایک چاند کو اکیلا بلا کسی روک ٹوک کے نہیں دیکھ لیتا ہے؟، میں نے کہا: کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس سے زیادہ عظیم ہے، اور اس کی مخلوق میں یہ (چاند) اس کے دیدار کی ایک نشانی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/السنة 20 (4731)، (تحفة الأشراف: 11175)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (حسن)» ‏‏‏‏ (وکیع بن حدس مقبول عند المتابعہ ہیں، او ران کی متابعت موجود ہے، ملاحظہ ہو: السنة لابن أبی عاصم (468)، شیخ الاسلام ابن تیمیة وجھودہ فی الحدیث وعلومہ (38) للدکتور عبد الرحمن الفریوائی)

Waki' bin Hudus narrated that his paternal uncle Abu Razin said: "I said: 'O Messenger of Allah, will we see Allah on the Day of Resurrection? And what is the sign of that in His creation?' He said: 'O Abu Razin, do each of you not see the moon individually?' I said: 'Of course.' He said: 'Allah is Greater, and that is His sign in His creation.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 181
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا حماد بن سلمة ، عن يعلى بن عطاء ، عن وكيع بن حدس ، عن عمه ابي رزين ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ضحك ربنا من قنوط عباده وقرب غيره"، قال: قلت يا رسول الله او يضحك الرب؟، قال:" نعم" قلت: لن نعدم من رب يضحك خيرا.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ وَكِيعِ بْنِ حُدُسٍ ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ضَحِكَ رَبُّنَا مِنْ قُنُوطِ عِبَادِهِ وَقُرْبِ غِيَرِهِ"، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَ يَضْحَكُ الرَّبُّ؟، قَالَ:" نَعَمْ" قُلْتُ: لَنْ نَعْدِمَ مِنْ رَبٍّ يَضْحَكُ خَيْرًا.
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا رب اپنے بندوں کے مایوس ہونے سے ہنستا ہے جب کہ اللہ کی طرف سے ان کی حالت بدلنے کا وقت قریب ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا رب ہنستا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو میں نے عرض کیا: تب تو ہم ایسے رب کے خیر سے ہرگز محروم نہ رہیں گے جو ہنستا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11180، ومصباح الزجاجة: 68)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (حسن) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2810)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت ضحک کا اثبات ہوتا ہے، اور اس کا ہنسنا ایسا ہے جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔

Waki' bin Hudus narrated that his paternal uncle Abu Razin said: "The Messenger of Allah said: 'Allah laughs at the despair of His slaves although He soon changes it.' I said: 'O Messenger of Allah, does the Lord laugh?' He said: 'Yes.' I said: 'We shall never be deprived of good by a Lord Who laughs.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 182
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن الصباح ، قالا: حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا حماد بن سلمة ، عن يعلى بن عطاء ، عن وكيع بن حدس ، عن عمه ابي رزين ، قال: قلت يا رسول الله اين كان ربنا قبل ان يخلق خلقه؟ قال:" كان في عماء ما تحته هواء، وما فوقه هواء، ثم خلق العرش على الماء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ وَكِيعِ بْنِ حُدُسٍ ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ ، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ كَانَ رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَهُ؟ قَالَ:" كَانَ فِي عَمَاءٍ مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ، وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ، ثَمَّ خَلْقٌ الْعَرْشَ عَلَى الْمَاءِ".
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا رب اپنی مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بادل میں تھا، نہ تو اس کے نیچے ہوا تھی نہ اوپر ہوا تھی، اور نہ ہی وہاں کوئی مخلوق تھی، (پھر پانی پیدا کیا) اور اس کا عرش پانی پہ تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 12 (3109)، (تحفة الأشراف: 11176)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (حدیث کی سند میں مذکور راوی وکیع بن حدس مجہول الحال ہیں، نیزملاحظہ ہو: ظلال الجنة: 612)

وضاحت:
۱؎: حدیث میں «عماء» کا لفظ آیا ہے جس کے معنی اگر «بالمد» ہو تو «سحاب رقیق» (بدلی) کے ہوتے ہیں، اور «بالقصر» ہو تو اس کے معنی «لاشیء» کے ہوتے ہیں، بعض اہل لغت نے «العماء» بالقصر کے معنی ایسے امر کے کئے ہیں جو عقل اور ادراک سے ماوراء ہو، حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت فوقیت و علو ثابت ہوئی، کیفیت مجہول ہے۔

Waki' bin Hudus narrated that his paternal uncle Abu Razin said: "I said: 'O Messenger of Allah, where was our Lord before He created His creation?' He said: He was above the clouds, below which was air, and above which was air and water. Then He created His Throne above the water.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 183
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا حميد بن مسعدة ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن صفوان بن محرز المازني ، قال: بينما نحن مع عبد الله بن عمر، وهو يطوف بالبيت إذ عرض له رجل، فقال: يا ابن عمر كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر في النجوى؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يدنى المؤمن من ربه يوم القيامة حتى يضع عليه كنفه ثم يقرره بذنوبه، فيقول:" هل تعرف"، فيقول: يا رب اعرف، حتى إذا بلغ منه ما شاء الله ان يبلغ، قال:" إني سترتها عليك في الدنيا وانا اغفرها لك اليوم"، قال:" ثم يعطى صحيفة حسناته، او كتابه بيمينه"، قال:" واما الكافر، او المنافق فينادى على رءوس الاشهاد"، قال خالد: في الاشهاد شيء من انقطاع هؤلاء الذين كذبوا على ربهم الا لعنة الله على الظالمين سورة هود آية 18.
(قدسي) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ الْمَازِنِيِّ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ إِذْ عَرَضَ لَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يُدْنَى الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ ثُمَّ يُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ، فَيَقُولُ:" هَلْ تَعْرِفُ"، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَعْرِفُ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ مِنْهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَبْلُغَ، قَالَ:" إِنِّي سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ"، قَالَ:" ثُمَّ يُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ، أَوْ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ"، قَالَ:" وَأَمَّا الْكَافِرُ، أَوِ الْمُنَافِقُ فَيُنَادَى عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ"، قَالَ خَالِدٌ: فِي الْأَشْهَادِ شَيْءٌ مِنَ انْقِطَاعٍ هَؤُلاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ سورة هود آية 18.
صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں: اس اثناء میں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھے، اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اچانک ایک شخص سامنے آیا، اور اس نے کہا: ابن عمر! آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «نجویٰ» (یعنی اللہ کا اپنے بندے سے قیامت کے دن سرگوشی کرنے) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مومن اپنے رب سے قیامت کے دن قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا، (تاکہ اس سرگوشی سے دوسرے باخبر نہ ہو سکیں)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا، اور فرمائے گا: کیا تم (اس گناہ کو) جانتے ہو؟ وہ بندہ کہے گا: اے رب! میں جانتا ہوں، یہاں تک کہ جب مومن اپنے جملہ گناہوں کا اقرار کر لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں ان گناہوں کی پردہ پوشی کی اور آج میں ان کو بخشتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ یا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہے کافر و منافق تو ان کو حاضرین کے سامنے پکارا جائے گا (راوی خالد کہتے ہیں کہ «الأشهاد»  میں کچھ انقطاع ہے): یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا، سن لو! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر (سورۃ ہود: ۱۸) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ المظالم 2 (2441)، التفسیر 4 (4685)، الأدب 70 (6070)، التوحید 36 (7514)، صحیح مسلم/التوبة 8 (2768)، سنن النسائی/الکبری (11242)، (تحفة الأشراف: 7096)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/74، 105) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث جہمیہ وغیرہ کی تردید کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے حروف و اصوات پر مشتمل ہونے کے منکر ہیں۔

It was narrated that Safwan bin Muhriz Al-Mazini said: "We were with 'Abdullah bin 'Umar when he was circumambulating the House; a man came up to him and said: 'O Ibn 'Umar, what did you hear the Messenger of Allah say about the Najwa?' He said: 'I heard the Messenger of Allah say: 'On the Day of Resurrection, the believer will be brought close to his Lord until He will cover him with His screen, then He will make him confess his sins. He will ask him: "Do you confess?" He will say: "O Lord, I confess." This will continue as long as Allah wills, then He will say: "I concealed them for you in the world, and I forgive you for them today." Then he will be given the scroll of his good deeds, or his record, in his right hand. But as for the disbeliever or the hypocrite, (his sins) will be announced before the witnesses.' " (One of the narrators) Khalid said: "At: 'before the witnesses' there is something missing." "These are the ones who lied against their Lord!' No doubt! The curse of Allah is on the wrongdoers."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 184
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب ، حدثنا ابو عاصم العباداني ، حدثنا الفضل الرقاشي ، عن محمد بن المنكدر ، عن جابر بن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بينا اهل الجنة في نعيمهم إذ سطع لهم نور فرفعوا رءوسهم، فإذا الرب قد اشرف عليهم من فوقهم، فقال:" السلام عليكم يا اهل الجنة، قال: وذلك قول الله سلام قولا من رب رحيم سورة يس آية 58 قال: فينظر إليهم وينظرون إليه، فلا يلتفتون إلى شيء من النعيم ما داموا ينظرون إليه حتى يحتجب عنهم ويبقى نوره وبركته عليهم في ديارهم".
(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الْعَبَّادَانِيُّ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ الرَّقَاشِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْنَا أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي نَعِيمِهِمْ إِذْ سَطَعَ لَهُمْ نُورٌ فَرَفَعُوا رُءُوسَهُمْ، فَإِذَا الرَّبُّ قَدْ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ مِنْ فَوْقِهِمْ، فَقَالَ:" السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، قَالَ: وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ سَلامٌ قَوْلا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ سورة يس آية 58 قَالَ: فَيَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَلَا يَلْتَفِتُونَ إِلَى شَيْءٍ مِنَ النَّعِيمِ مَا دَامُوا يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ حَتَّى يَحْتَجِبَ عَنْهُمْ وَيَبْقَى نُورُهُ وَبَرَكَتُهُ عَلَيْهِمْ فِي دِيَارِهِمْ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس درمیان کہ اہل جنت اپنی نعمتوں میں ہوں گے، اچانک ان پر ایک نور چمکے گا، وہ اپنے سر اوپر اٹھائیں گے تو دیکھیں گے کہ ان کا رب ان کے اوپر سے جھانک رہا ہے، اور فرما رہا ہے: اے جنت والو! تم پر سلام ہو، اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے قول: «سلام قولا من رب رحيم» (سورة يس: 58) کا رحيم (مہربان) رب کی طرف سے (اہل جنت کو) سلام کہا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک باری تعالیٰ کے دیدار کی نعمت ان کو ملتی رہے گی وہ کسی بھی دوسری نعمت کی طرف مطلقاً نظر نہیں اٹھائیں گے، پھر وہ ان سے چھپ جائے گا، لیکن ان کے گھروں میں ہمیشہ کے لیے اس کا نور اور برکت باقی رہ جائے گی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3067، ومصباح الزجاجة: 69) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (ابوعاصم العبادانی منکر الحدیث اور الفضل بن عیسیٰ بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، نیزملاحظہ ہو: المشکاة: 5664)

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں کئی طرح سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ جہت علو میں ہے، نیز کلام اللہ کا حروف و اصوات پر مشتمل ہونا، اور قابل سماع ہونا بھی ثابت ہوا کہ جنتی جنت میں اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے، جہمیہ اللہ رب العزت کی رؤیت کے منکر ہیں، ان کا مذہب باطل ہے۔

It was narrated that Jabor bin 'Abdullah said: "The Messenger of Allah said: 'While the people of Paradise are enjoying their blessings, a light will shine upon them, and they will raise their heads, and they will see their Lord looking upon them from above. He will say: "Peace be upon you, O people of Paradise." This is what Allah says in the Verse: "Salam (peace be upon you) - a Word from the Lord (Allah), The Most Merciful." He will look at them, and they will look at Him, and they will not pay any attention to the delights (of Paradise) so long as they look at Him, until He will screen Himself from them. But His light and blessing will remain with them in their bodies.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 185
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن الاعمش ، عن خيثمة ، عن عدي بن حاتم ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما منكم من احد إلا سيكلمه ربه ليس بينه وبينه ترجمان، فينظر عن ايمن منه فلا يرى إلا شيئا قدمه، ثم ينظر عن ايسر منه فلا يرى إلا شيئا قدمه، ثم ينظر امامه فتستقبله النار فمن استطاع منكم ان يتقي النار ولو بشق تمرة فليفعل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تَرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ عَنْ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ أَيْسَرَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ أَمَامَهُ فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَّقِيَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) بغیر کسی ترجمان کے ہم کلام ہو گا ۱؎، بندہ اپنی دائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو اپنے آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر بائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر اپنے آگے دیکھے گا تو جہنم اس کے سامنے ہو گی پس جو جہنم سے بچ سکتا ہو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کو اللہ کی راہ میں دے کر تو اس کو ضرور ایسا کرنا چاہیئے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 9 (1413)، 10 (1417)، المناقب 25 (3595)، الأدب 34 (6023)، الرقاق 49 (6539)، 51 (6563) التوحید 36 (7512)، صحیح مسلم/الزکاة 20 (1016)، سنن الترمذی/صفة القیامة 1 (2415)، (تحفة الأشراف: 9852)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الزکاة 63 (2554)، مسند احمد (4/256، 258، 259، 377) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ جب جنت میں لوگ داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان کوئی حجاب (پردہ) نہ ہو گا، اس کی طرف نظر کرنے سے صرف اس ذات مقدس کی عظمت و کبریائی اور جلال و ہیبت ہی مانع ہو گا، پھر جب اللہ عزوجل ان پر اپنی رافت اور رحمت اور فضل و امتنان کا اظہار کرے گا تو وہ رکاوٹ دور ہو جائے گی، اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا شرف حاصل کر لیں گے۔

It was narrated that 'Adi bin Hatim said: "The Messenger of Allah said: 'There is no one among you but his Lord will speak to him without any intermediary between them. He will look to his right and will not see anything but that which he sent forth. He will look to his left and will not see anything but that which he sent forth. Then he will look in front of him and will be faced with the Fire. So whoever among you can protect himself from fire, even by means of half a date, let him do so.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 186
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو عبد الصمد عبد العزيز بن عبد الصمد حدثنا ابو عمران الجوني ، عن ابي بكر بن عبد الله بن قيس الاشعري ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" جنتان من فضة آنيتهما وما فيهما، وجنتان من ذهب آنيتهما وما فيهما، وما بين القوم وبين ان ينظروا إلى ربهم تبارك وتعالى إلا رداء الكبرياء على وجهه في جنة عدن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" جَنَّتَانِ مِنْ فِضَّةٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَجَنَّتَانِ مِنْ ذَهَبٍ آنِيَتُهُمَا وَمَا فِيهِمَا، وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَى رَبِّهِمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِيَاءِ عَلَى وَجْهِهِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ".
ابوموسیٰ اشعری (عبداللہ بن قیس) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ساری چیزیں چاندی کی ہیں، اور دو جنتیں ایسی ہیں کہ ان کے برتن اور ان کی ساری چیزیں سونے کی ہیں، جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف اس کے چہرے پہ پڑی کبریائی کی چادر ہو گی جو دیدار سے مانع ہو گی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الرحمن 1 (4878)، التوحید 24 (7444)، صحیح مسلم/الإیمان 80 (180)، سنن الترمذی/صفة الجنة 3 (2528)، سنن النسائی/الکبری (7765)، (تحفة الأشراف: 9135)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/411، 416)، سنن الدارمی/الرقاق 101 (2825) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کا مقصد بھی یہ ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کی رؤیت میں رکاوٹ اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی ہیبت اور اس کا جلال ہو گا، جس کے سبب کسی کو اس کی طرف نظر اٹھانے کی ہمت نہ ہو گی، لیکن جب اس کی رحمت و رأفت اور اس کے فضل و کرم کا ظہور ہو گا تو یہ رکاوٹ دور ہو جائے گی، اور اہل ایمان اس کی رؤیت کی نعمت سے سرفراز ہو جائیں گے، اس حدیث میں فرقۂ جہمیہ کا بڑا واضح اور بلیغ رد ہے جو رؤیت باری تعالیٰ کے منکر ہیں۔

Abu Bakr bin Qais Al-Ash'ari narrated that his father said: "The Messenger of Allah said: 'Two gardens of silver, their vessels and everything in them; and two gardens of gold, their vessels and everything in them, and nothing between the people and their seeing their Lord, the Blessed and Exalted, except the Veil of Pride covering His Face in the Garden of Eden (Jannat 'Adn)."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 187
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا عبد القدوس بن محمد ، حدثنا حجاج ، حدثنا حماد ، عن ثابت البناني ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن صهيب ، قال: تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية للذين احسنوا الحسنى وزيادة سورة يونس آية 26، وقال:" إذا دخل اهل الجنة الجنة، واهل النار النار، نادى مناد يا اهل الجنة إن لكم عند الله موعدا يريد ان ينجزكموه، فيقولون: وما هو الم يثقل الله موازيننا، ويبيض وجوهنا، ويدخلنا الجنة، وينجنا من النار، قال:" فيكشف الحجاب فينظرون إليه، فوالله ما اعطاهم الله شيئا احب إليهم من النظر إليه، ولا اقر لاعينهم".
(قدسي) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ سورة يونس آية 26، وَقَالَ:" إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلُ النَّارِ النَّارَ، نَادَى مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَوْعِدًا يُرِيدُ أَنْ يُنْجِزَكُمُوهُ، فَيَقُولُونَ: وَمَا هُوَ أَلَمْ يُثَقِّلِ اللَّهُ مَوَازِينَنَا، وَيُبَيِّضْ وُجُوهَنَا، وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ، وَيُنْجِنَا مِنَ النَّارِ، قَالَ:" فَيَكْشِفُ الْحِجَابَ فَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَوَاللَّهِ مَا أَعَطَاهُمُ اللَّهُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ، وَلَا أَقَرَّ لِأَعْيُنِهِمْ".
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «للذين أحسنوا الحسنى وزيادة» جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے نیکی ہے اور اس سے زیادہ بھی ہے (سورة يونس: 26) کی تلاوت فرمائی، اور اس کی تفسیر میں فرمایا: جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو منادی پکارے گا: جنت والو! اللہ کے پاس تمہارا ایک وعدہ ہے وہ اسے پورا کرنا چاہتا ہے، جنتی کہیں گے: وہ کیا وعدہ ہے؟ کیا اللہ نے ہمارے نیک اعمال کو وزنی نہیں کیا؟ ہمارے چہروں کو روشن اور تابناک نہیں کیا؟ ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا؟ اور ہمیں جہنم سے نجات نہیں دی؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دے گا، لوگ اس کا دیدار کریں گے، اللہ کی قسم! اللہ کے عطیات میں سے کوئی بھی چیز ان کے نزدیک اس کے دیدار سے زیادہ محبوب اور ان کی نگاہ کو ٹھنڈی کرنے والی نہ ہو گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 80 (181)، سنن الترمذی/صفة الجنة 52 (2552)، تفسیر القرآن 11 (3105)، سنن النسائی/ الکبری (7766)، (تحفة الأشراف: 4968)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/332، 333، 6/ 15) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Suhaib said: "The Messenger of Allah recited this Verse: 'For those who have done good is the best reward and even more.' Then he said: 'When the people of Paradise enter Paradise, and the people of the Fire enter the Fire, a caller will cry out: "O people of Paradise! You have a covenant with Allah and He wants to fulfill it." They will say: "What is it?" Has Allah not made the Balance (of our good deeds) heavy, and made our faces bright, and admitted us to Paradise and saved us from Hell?" Then the Veil will be lifted and they will look upon Him, and by Allah, Allah will not give them anything that is more beloved to them or delightful, than looking upon Him.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 188
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن تميم بن سلمة ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ، قالت:" الحمد لله الذي وسع سمعه الاصوات، لقد جاءت المجادلة إلى النبي صلى الله عليه وسلم وانا في ناحية البيت تشكو زوجها"، وما اسمع ما تقول فانزل الله: قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها سورة المجادلة آية 1.
(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَاءَتِ الْمُجَادِلَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ تَشْكُو زَوْجَهَا"، وَمَا أَسْمَعُ مَا تَقُولُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا سورة المجادلة آية 1.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی سماعت تمام آوازوں کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کرنے لگی، میں گھر کے ایک گوشہ میں تھی اور اس کی باتوں کو سن نہیں پا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها» بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی (سورة المجادلة: ۱) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التوحید 9 (7385)، (تعلیقاً)، سنن النسائی/ الطلاق 33 (3490)، (تحفة الأشراف: 16332)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/ 46)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2063) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ آیت اوس بن صامت کی بیوی خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا کے حق میں نازل ہوئی، ایک بار ان کے شوہر نے ان کو بلایا تو انہوں نے عذر کیا، اس پر اوس رضی اللہ عنہ نے خفا ہو کر کہا: تم میرے اوپر ایسی ہو جیسی میری ماں کی پیٹھ، اسے شرعی اصطلاح (زبان) میں ظہار کہتے ہیں، پھر وہ نادم ہوئے، ظہار و ایلاء جاہلیت کا طلاق تھا، غرض خولہ کے شوہر نے کہا کہ تم مجھ پر حرام ہو، تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کا سر مبارک دھو رہی تھیں، خولہ نے کہا: اللہ کے رسول میرے شوہر اوس بن صامت نے جب مجھ سے شادی کی تھی تو میں جوان اور مالدار تھی، پھر جب انہوں نے میرا مال کھا لیا، اور میری جوانی مٹ گئی، اور میرے عزیز و اقارب چھوٹ گئے، اور میں بوڑھی ہو گئی تو مجھ سے ظہار کیا، اور وہ اب اپنے اس اقدام پر نادم ہیں، تو کیا اب کوئی صورت ایسی ہے کہ میں اور وہ مل جائیں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم اس پر حرام ہو گئی، پھر انہوں نے کہا کہ میں اپنے اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور تنہائی کو رکھتی ہوں، ایک مدت دراز تک میں ان کے پاس رہی اور ان سے میرے بچے ہیں جن سے مجھے پیار ہے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: تم اس پر حرام ہو، اور مجھے تمہارے بارے میں کوئی حکم نہیں ہوا، پھر خولہ نے بار بار نبی اکرم ﷺ سے اپنے احوال و مشکلات کا اظہار کیا، اور جب نبی اکرم ﷺ فرماتے کہ تم اس پر حرام ہو گئی تو وہ فریادیں کرتیں اور کہتیں کہ میں اللہ کے سامنے اپنے فقر و فاقہ اور شدت حال کو رکھتی ہوں، میرے چھوٹے بچے ہیں، اگر میں ان کو شوہر کے سپرد کر دوں تو وہ برباد ہوں گے، اور اگر اپنے پاس رکھوں تو بھوکے مریں گے، اور بار بار آسمان کی طرف اپنا سر اٹھاتی تھیں کہ یااللہ میں تجھ سے فریاد کرتی ہوں، یااللہ تو اپنا کوئی حکم اپنے نبی ﷺ کی زبان پر اتار دے کہ جس سے میری مصیبت دور ہو، اسلام میں ظہار کا یہ پہلا واقعہ تھا، اور دوسری طرف ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ کا سر دھونے میں مشغول تھیں، تو خولہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے سنا کہ اللہ کے نبی میرے لئے کچھ غور کریں، اللہ مجھے آپ پر فدا کرے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ذرا تم خاموش رہو، رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک دیکھتی نہیں ہو، نبی اکرم ﷺ کی حالت یہ ہوتی تھی کہ جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ پر اونگھ طاری ہو جاتی، پھر جب وحی اتر چکی تو آپ ﷺ نے فرمایا: خولہ نے اپنے شوہر کا شکوہ کیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:  «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها» بیشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی (سورة المجادلة: 1)۔ اس قصہ سے بڑے عمدہ فوائد معلوم ہوئے: (۱) آیت کا شان نزول کہ یہ آیت حکم ظہار پر مشتمل ہے، اور اس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (۲) صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ جب کوئی حادثہ پیش آتا تو وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور یہی حکم ہے ساری امت کے لئے کہ مشکلات و مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کریں، اگرچہ نبی اکرم ﷺ دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں مگر آپ کی سنت (احادیث شریفہ) اور کتاب (قرآن مجید) ہمارے درمیان ہے، اور دنیا میں یہی دونوں چیزیں اہل اسلام کے لیے ترکہ اور میراث ہیں،  «فمن أخذه أخذ بحظ وافر» ۔ (۳) انبیاء کی بشریت اور مجبوری کہ وہ بھی تمام امور میں اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خولہ رضی اللہ عنہا کو کچھ جواب نہ دیا جب تک کہ رب السماوات نے حکم نہ اتارا۔ (۴) سابقہ شرائع پر ہمارے لئے عمل واجب ہے جب تک کہ اس کے نسخ کا علم ہم تک نہ پہنچے، اور اسی کے موافق نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم ان پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کا نسخ اتارا تو آپ ﷺ نے ناسخ کے موافق حکم دیا۔ (۵) صراحت کے ساتھ اور محسوس اشارے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے علو اور فوقیت کا ثبوت کہ خولہ رضی اللہ عنہا بار بار اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اپنی حالت بیان کرتی ہوں، اور نبی اکرم ﷺ نے ان کے اس امر کی تقریر و تصویب فرمائی اور کوئی اعتراض نہ کیا، اور اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی جانب و جہت خاص نہ ہو، اور رسول اکرم ﷺ کے سامنے کوئی اللہ تعالیٰ کے لئے جہت کو خاص کرے اور آپ ﷺ اس پر خاموش رہیں، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں جو اسلام کی اساس اور ایمان کی بنیاد ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جہالت اور بدعقیدگی کو گوارہ کریں یہ محال بات ہے، اور اس سے بھی محال اور بعید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس علو اور فوقیت کے عقیدہ کو ناپسند کرے، اور اس پر تنبیہ نہ کر کے ظہار کے بارے میں اپنے احکام اتارے اور صحیح عقیدہ کی تعلیم نہ دے، خلاصہ یہ ہے کہ اس قصے میں اللہ تعالیٰ کے لیے علو اور بلندی کی بات پورے طورپر واضح ہے، اور سلف صالحین اور ائمہ اسلام کے یہاں یہ مسئلہ اجماعی ہے۔ (۶) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ و صحابیات کو رسول اکرم ﷺ سے کتنی محبت تھی، اور وہ کس ادب و احترام کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوتے تھے، اور بات بات میں اپنے آپ کو رسول اکرم ﷺ پر فدا کرتے تھے، اور یہی نسبت ضروری ہے ہر مسلمان کو آپ کی سنت شریفہ سے کہ دل و جان سے اس پر عمل کرے۔ (۷) اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے لئے «سمع و بصر» (سننے اور دیکھنے) کی صفات ثابت ہوئیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  «إن الله سميع بصير» یقینا اللہ تعالیٰ سننے اور دیکھنے والا ہے (سورة المجادلة: 1) اور فرمایا:  «قال لا تخافا إنني معكما أسمع وأرى» اللہ نے (موسیٰ و ہارون) سے کہا تم بالکل نہ ڈرو میں تمہارے ساتھ ہوں، اور سنتا اور دیکھتا رہوں گا (سورة طه: 46)۔ اور ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب بلندی پر چڑھتے تو «اللہ اکبر» کہتے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی جانوں پر نرمی کرو، اس لئے کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے، بلکہ «سمیع و بصیر» (سننے والے دیکھنے والے) کو پکارتے ہو۔

It was narrated that 'Aishah said: "Praise is to Allah Whose hearing encompasses all voices. The woman who disputed concerning her husband (Al-Mujadilah) came to the Prophet when I was (sitting) in a corner of the house, and she complained about her husband, but I did not hear what she said. The Allah revealed: 'Indeed Allah has heard the statement of her that disputes with you concerning her husband.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 189
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا صفوان بن عيسى ، عن ابن عجلان ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كتب ربكم على نفسه بيده قبل ان يخلق الخلق رحمتي سبقت غضبي".
(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ بِيَدِهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ذمہ لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 100 (3543)، (تحفة الأشراف: 14139)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/بدء الخلق 1 (3194)، صحیح مسلم/التوبة 4 (2751)، مسند احمد (2/433)، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے: 4295) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے پیر، ہاتھ اور انگلیوں کا ذکر ہے، اس سلسلے میں سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیر بھی ہیں، ہاتھ بھی ہیں، انگلیاں بھی ہیں، ان کے ہونے پر ہمارا کامل ایمان اور یقین بھی ہے، لیکن وہ کیسے ہیں؟ ان کی کیفیت کیا ہے؟ ہمیں معلوم نہیں اور نہ ہمیں ان کی کیفیت سے کوئی غرض ہے، بس اتنی سی بات کافی ہے کہ اس کی عظمت و جلالت کے مطابق اس کی انگلیاں ہوں گی، نہ تو اسے کسی مخلوق کے ساتھ تشبیہ اور تمثیل دی جا سکتی ہے، اور نہ اللہ کے ہاتھ پاؤں اور اس کی انگلیوں کے لئے جو الفاظ مستعمل ہوئے ہیں انہیں اپنے اصلی اور حقیقی معنی سے ہٹایا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی انگلیوں سے مراد اللہ کی رحمتیں ہیں، ایسا کہنا مناسب نہیں، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ «ید» (ہاتھ) «کف» (ہتھیلی) اور «انامل» (انگلیاں) جس معنی کے لئے موضوع ہیں بعینہ وہی معنی مراد لینا چاہئے، اس حدیث میں بھی صفات کے منکر فرقہ جہمیہ کا رد و ابطال ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے «ید» (ہاتھ) رحمت اور غضب کی صفات کا انکار کرتے ہیں جب کہ اس حدیث میں یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں۔

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah said: 'Your Lord wrote for Himself with His Own Hand before He created the creation: "My mercy precedes My wrath."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
حدیث نمبر: 190
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي ، ويحيى بن حبيب بن عربي ، قالا: حدثنا موسى بن إبراهيم بن كثير الانصاري الحرامي ، قال: سمعت طلحة بن خراش ، قال: سمعت جابر بن عبد الله ، يقول: لما قتل عبد الله بن عمرو بن حرام يوم احد، لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" يا جابر الا اخبرك ما قال الله لابيك؟" وقال يحيى في حديثه، فقال:" يا جابر ما لي اراك منكسرا؟" قال: قلت: يا رسول الله استشهد ابي وترك عيالا ودينا، قال:" افلا ابشرك بما لقي الله به اباك"؟ قال: بلى يا رسول الله، قال:" ما كلم الله احدا قط إلا من وراء حجاب، وكلم اباك كفاحا، فقال: يا" عبدي تمن علي اعطك"، قال: يا رب تحييني فاقتل فيك ثانية، فقال الرب سبحانه:" إنه سبق مني انهم إليها لا يرجعون"، قال: يا رب فابلغ من ورائي، قال: فانزل الله تعالى ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء عند ربهم يرزقون سورة آل عمران آية 169.
(قدسي) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ الْحَرَامِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: لَمَّا قُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ يَوْمَ أُحُدٍ، لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا جَابِرُ أَلَا أُخْبِرُكَ مَا قَالَ اللَّهُ لِأَبِيكَ؟" وَقَالَ يَحْيَى فِي حَدِيثِهِ، فَقَالَ:" يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا؟" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ:" أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ"؟ قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَكَلَّمَ أَبَاكَ كِفَاحًا، فَقَالَ: يَا" عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ"، قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلُ فِيكَ ثَانِيَةً، فَقَالَ الرَّبُّ سُبْحَانَهُ:" إِنَّهُ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يَرْجِعُونَ"، قَالَ: يَا رَبِّ فَأَبْلِغْ مَنْ وَرَائِي، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران آية 169.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمرو بن حرام غزوہ احد کے دن قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: جابر! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے کیا کہا ہے؟، (اور یحییٰ بن حبیب راوی نے اپنی حدیث میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جابر! میں تمہیں کیوں شکستہ دل دیکھتا ہوں؟)، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے، اور اہل و عیال اور قرض چھوڑ گئے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے ملاقات کے وقت کہا؟، جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر حجاب کے کلام نہیں کیا، لیکن تمہارے والد سے بغیر حجاب کے کلام کیا، اور فرمایا: میرے بندے! مجھ سے آرزو کر میں تجھے عطا کروں گا، اس پر انہوں نے کہا: میرے رب! میری آرزو یہ ہے کہ تو مجھے زندہ کر دے، اور میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: یہ بات تو پہلے ہی ہماری جانب سے لکھی جا چکی ہے کہ لوگ دنیا میں دوبارہ واپس نہیں لوٹائے جائیں گے ۱؎، انہوں نے کہا: میرے رب! ان لوگوں کو جو دنیا میں ہیں میرے احوال کی خبر دیدے، انہوں نے کہا: اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس روزی پاتے ہیں (سورة آل عمران: ۱۶۹) ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2287، ومصباح الزجاجة: 70)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن 4 (3010) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2800) (حسن) (ملاحظہ ہو: السنة لابن أبی عاصم: 615، 616)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اور جب شہیدوں کو دوبارہ دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا تو دوسرے کس کو لوٹنے کی اجازت ہو گی، پتہ چلا کہ جو لوگ انتقال کر گئے وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے۔ ۲؎: اس سے پتہ چلا کہ جو لوگ شہید ہو گئے ان کی زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے، اور نہ وہ دنیا میں زندہ ہیں۔

Talhah bin Khirash said: "I head Jabir bin 'Abdullah say" 'When 'Abdullah bin 'Amr bin )Haram) was killed on the Day of Uhud, the Messenger of Allah met me, and said: "O Jabir, shall I not tell you what Allah has said to your father?" Yahya said in his Hadith: "And he said: 'O Jabir, why do I see you broken-hearted?' I (Jabir) said: 'O Messenger of Allah, my father has been martyred and he has left behind dependents and debts.' He said: 'Shall I not give you the glad tidings of that with which Allah met your father?' I said: 'Yes, O Messenger of Allah.' He said: 'Allah never spoke to anyone except from behind a screen, but He spoke to your father directly, and He said: "O My slave! Ask something from Me and I shall give it to you." He said: "O Lord, bring me back to life so that I may be killed in Your cause a second time." The Lord, Glorified is He, said: "I have already decreed that they will not return to life." He said: "My Lord, then convey (this news) to those whom I have left behind." Allah said: "Think not of those as dead who are killed in the way of Allah, Nay, they are alive, with their Lord, and they have provision."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 191
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله يضحك إلى رجلين يقتل احدهما الآخر كلاهما دخل الجنة، يقاتل هذا في سبيل الله فيستشهد، ثم يتوب الله على قاتله، فيسلم فيقاتل في سبيل الله فيستشهد".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ يَضْحَكُ إِلَى رَجُلَيْنِ يَقْتُلُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ كِلَاهُمَا دَخَلَ الْجَنَّةَ، يُقَاتِلُ هَذَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُسْتَشْهَدُ، ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَى قَاتِلِهِ، فَيُسْلِمُ فَيُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُسْتَشْهَدُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان دو افراد کے حال پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، اور دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے، پھر اس کے قاتل کو اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق دیتا ہے، اور وہ اسلام قبول کر لیتا ہے، پھر اللہ کی راہ میں لڑائی کرتا ہے اور شہید کر دیا جاتا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 35 (1890)، (تحفة الأشراف: 13663)، قد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد 28 (2826)، سنن النسائی/الجہاد 37 (3167)، 38 (3168)، موطا امام مالک/الجہاد 14 (28)، مسند احمد (2/318، 464) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے اہل سنت نے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت «ضحک» (ہنسنے) پر استدلال کیا ہے، اور یہ صفت رضا اور خوشی پر دلالت کرتی ہے، اور اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات کی طرح اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں، جیسا کہ اس ذات باری تعالیٰ کے لئے لائق و سزاوار ہے، اور اس کو ہم مخلوقات سے کسی طرح کی مشابہت نہیں دیتے، اور نہ اس صفت کے معنی کو معطل کرتے ہیں، اور نہ اس کا انکار کرتے ہیں۔

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah said: 'Allah will laugh at two persons- one of them kills the other, and both of them enter Paradise, for the first one fought in the cause of Allah and was martyred, then his killer repented to Allah and became Muslim, then he also fought in the cause of Allah and was martyred.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 192
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا حرملة بن يحيى ، ويونس بن عبد الاعلى ، قالا: حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، حدثني سعيد بن المسيب ، ان ابا هريرة كان يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يقبض الله الارض يوم القيامة، ويطوي السماء بيمينه، ثم يقول: انا الملك اين ملوك الارض؟".
(قدسي) حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُول: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ؟".
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا، اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: اصل بادشاہ میں ہوں، زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الزمر 3 (4812)، التوحید 6 (7382)، صحیح مسلم/صفة القیامة 1 (2787)، (تحفة الأشراف: 13322)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2 /374)، سنن الدارمی/الرقاق 80 (2841) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے «ید» و «قبض» و «طی» کا اثبات ہوتا ہے، اہل سنت اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں جو قبض و بسط و انفاق جیسی صفات رکھتے ہیں، اس کے دونوں ہاتھ «یمین» ہیں، اور اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔

Sa'eed bin Musayyab narrated that Abu Hurairah used to say: "The Messenger of Allah said: Allah will seize the earth on the Day of Ressurection, and He will roll up the heavens in his Right Hand, then He will say, "I am the Sovereign. Where are the kings of the earth?'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 193
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا محمد بن الصباح ، حدثنا الوليد بن ابي ثور الهمداني ، عن سماك ، عن عبد الله بن عميرة ، عن الاحنف بن قيس ، عن العباس بن عبد المطلب ، قال: كنت بالبطحاء في عصابة وفيهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فمرت به سحابة فنظر إليها، فقال:" ما تسمون هذه؟"، قالوا: السحاب، قال:" والمزن"، قالوا: والمزن، قال:" والعنان"، قال ابو بكر: قالوا: والعنان، قال:" كم ترون بينكم وبين السماء؟"، قالوا: لا ندري، قال:" فإن بينكم وبينها إما واحدا، او اثنين، او ثلاثا وسبعين سنة، والسماء فوقها كذلك حتى عد سبع سماوات، ثم فوق السماء السابعة بحر بين اعلاه واسفله كما بين سماء إلى سماء، ثم فوق ذلك ثمانية اوعال بين اظلافهن وركبهن كما بين سماء إلى سماء، ثم على ظهورهن العرش بين اعلاه واسفله كما بين سماء إلى سماء، ثم الله فوق ذلك تبارك وتعالى".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ الْهَمْدَانِيُّ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ ، عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ: كُنْتُ بِالْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ وَفِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَّتْ بِهِ سَحَابَةٌ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، فَقَالَ:" مَا تُسَمُّونَ هَذِهِ؟"، قَالُوا: السَّحَابُ، قَالَ:" وَالْمُزْنُ"، قَالُوا: وَالْمُزْنُ، قَالَ:" وَالْعَنَانُ"، قَال أَبُو بَكْرٍ: قَالُوا: وَالْعَنَانُ، قَالَ:" كَمْ تَرَوْنَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ؟"، قَالُوا: لَا نَدْرِي، قَالَ:" فَإِنَّ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا إِمَّا وَاحِدًا، أَوِ اثْنَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا وَسَبْعِينَ سَنَةً، وَالسَّمَاءُ فَوْقَهَا كَذَلِكَ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ، ثُمَّ فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَعْلَاهُ وَأَسْفَلِهِ كَمَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلَافِهِنَّ وَرُكَبِهِنَّ كَمَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ عَلَى ظُهُورِهِنَّ الْعَرْشُ بَيْنَ أَعْلَاهُ وَأَسْفَلِهِ كَمَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ اللَّهُ فَوْقَ ذَلِكَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى".
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ مقام بطحاء میں تھا، اور ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے کہ بادل کا ایک ٹکڑا گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: تم لوگ اس کو کیا کہتے ہو؟، لوگوں نے کہا: «سحاب»، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مزن» بھی؟، انہوں نے کہا: جی ہاں، «مزن» بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عنان» بھی؟، لوگوں نے کہا: «عنان» بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ جانتے ہو؟، لوگوں نے کہا: ہم نہیں جانتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور اس کے درمیان اکہتر (۷۱)، بہتر (۷۲)، یا تہتر (۷۳) سال کی مسافت ہے، پھر اس کے اوپر آسمان کی بھی اتنی ہی مسافت ہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح سات آسمان شمار کیے، پھر فرمایا: ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے، اس کے نچلے اور اوپری حصہ کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان میں ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی طرح ہیں، ان کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان ہے، پھر ان کی پیٹھ پر عرش ہیں، اس کے نچلے اور اوپری حصہ کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان میں ہے، پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے جو بڑی برکت والا، بلند تر ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/السنة 19 (4723)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن 67 (3320)، (تحفة الأشراف: 5124)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/ 206، 207) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (حدیث کی سند میں مذکور راوی ''الولید بن أبی ثور الہمدانی'' ضعیف ہیں، ''عبد اللہ بن عمیرہ'' لین الحدیث، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1247)

وضاحت:
۱؎: اگرچہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے، لیکن اس حدیث سے مصنف نے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت علو ثابت کیا ہے، جب کہ یہ صفت کتاب و سنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے اور ائمہ اسلام کا اس پر اجماع ہے، اس میں تاویل کی قطعاً گنجائش نہیں، یہاں پر علو سے مراد علو معنوی نہیں بلکہ حسی اور حقیقی علو ہے، اور یہ امر فطرت انسانی کے عین موافق ہے، لیکن معتزلہ و جہمیہ کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ وہ اس کی تاویل کرتے اور اس کا انکار کرتے ہیں، اور جس بات کو رسول اکرم ﷺ نے عقلاً، حسا، لفظاً اور معناً بیان فرما دیا ہے اس میں شک کرتے ہیں، ائمہ دین نے اس مسئلہ میں مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں، جیسے كتاب العلو للعلي الغفار للامام الذہبی۔

It was narrated that 'Abbas bin 'Abdul-Mutallib said: "I was in Batha with a group of people, among them whom was the Messenger of Allah. A cloud passed over him, and he looked at it and said: 'What do you call this?' They said: 'Sahab (a cloud).' He said: 'And Muzn (rain cloud).' They said: 'And Muzn.' He said: 'And 'Anan (clouds).' Abu Bakr said: "They said: 'And 'Anan.'" He said: 'How much (distance) do you think there is between you and the heavens?' They said: 'We do not know.' He said: 'Between you and it is seventy-one, or seventy-two, or seventy-three years, and there is a similar distance between it and the heaven above it (and so on)' until he counted seven heavens. 'Then above the seventh heaven there is a sea, between whose top and bottom is a distance like that between one heaven and another. Then above that there are eight (angels in the form of) mountain goats. The distance between their hooves and their knees is like the distance between one heaven and the next. Then on their backs is the Throne, and the distance between the top and the bottom of the Throne is like the distance between one heaven and another. Then Allah is above that, the Blessed and Exalted."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 194
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا يعقوب بن حميد بن كاسب ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن عمرو بن دينار ، عن عكرمة ، عن ابي هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا قضى الله امرا في السماء، ضربت الملائكة اجنحتها خضعانا لقوله كانه سلسلة على صفوان، فإذا فزع عن قلوبهم، قالوا: ماذا قال ربكم؟ قالوا: الحق وهو العلي الكبير سورة سبا آية 23 قال: فيسمعها مسترقو السمع بعضهم فوق بعض، فيسمع الكلمة فيلقيها إلى من تحته فربما ادركه الشهاب قبل ان يلقيها إلى الذي تحته، فيلقيها على لسان الكاهن او الساحر، فربما لم يدرك حتى يلقيها، فيكذب معها مائة كذبة، فتصدق تلك الكلمة التي سمعت من السماء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا قَضَى اللَّهُ أَمْرًا فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ أَجْنِحَتَهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ سورة سبأ آية 23 قَالَ: فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ بَعْضُهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ، فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ فَرُبَّمَا أَدْرَكَهُ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا إِلَى الَّذِي تَحْتَهُ، فَيُلْقِيهَا عَلَى لِسَانِ الْكَاهِنِ أَوِ السَّاحِرِ، فَرُبَّمَا لَمْ يُدْرَكْ حَتَّى يُلْقِيَهَا، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَتَصْدُقُ تِلْكَ الْكَلِمَةُ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی تابعداری میں بطور عاجزی اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، جس کی آواز کی کیفیت چکنے پتھر پر زنجیر مارنے کی سی ہوتی ہے، پس جب ان کے دلوں سے خوف دور کر دیا جاتا ہے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواب دیتے ہیں: اس نے حق فرمایا، اور وہ بلند ذات والا اور بڑائی والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوری سے باتیں سننے والے (شیاطین) جو اوپر تلے رہتے ہیں اس کو سنتے ہیں، اوپر والا کوئی ایک بات سن لیتا ہے تو وہ اپنے نیچے والے کو پہنچا دیتا ہے، بسا اوقات اس کو شعلہ اس سے پہلے ہی پا لیتا ہے کہ وہ اپنے نیچے والے تک پہنچائے، اور وہ کاہن (نجومی) یا ساحر (جادوگر) کی زبان پر ڈال دے، اور بسا اوقات وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا یہاں تک کہ وہ نیچے والے تک پہنچا دیتا ہے، پھر وہ اس میں سو جھوٹ ملاتا ہے تو وہی ایک بات سچ ہوتی ہے جو آسمان سے سنی گئی تھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الحجر 1 (4800) التوحید 32 (7481)، سنن ابی داود/الحروف والقراء ات 1 (3989)، سنن الترمذی/التفسیر 35 (3223)، (تحفة الأشراف: 14249) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے بھی واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ بلندی پر ہے، اس کے احکام اوپر ہی سے نازل ہوتے ہیں، پس احکم الحاکمین اوپر ہی ہے، اور نیچے والے فرشتے اوپر کے درجہ والوں سے پوچھتے ہیں: کیا حکم ہوا؟ وہ ان کو جواب دیتے ہیں کہ جو حکم اللہ تعالیٰ کا ہے وہ حق ہے، اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی بڑی عظمت اور ہیبت واضح ہوتی ہے، اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے باوجود قرب، نورانیت اور معصومیت کے اس قدر اللہ تعالیٰ سے لرزاں و ترساں ہیں تو ہم کو بدرجہا اس سے زیادہ ڈرنا چاہئے۔

It was narrated from Abu Hurairah that: The Prophet said: "When Allah decrees a matter in heaven, the angels beat their wings in submission to his decree (with a sound) like a chain beating a rock. Then "When fear is banished from their hearts, they say: 'What is it that your Lord has said?' They say: 'The truth. And He is The Most High, The Most Great." He said: 'Then the eavesdroppers (from among the jinn) listen out for that, one above the other, so (one of them) hears the words and passes it on to the one beneath him. The Shihab (shooting star) may strike him before he can pass it on to the one beneath him and the latter can pass it on to the soothsayer or sorcerer, or it may not strike him until he has passed it on. And he ads one hundred lies to it, and only that word which was overheard from the heavens is true."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 195
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس كلمات فقال:" إن الله لا ينام، ولا ينبغي له ان ينام، يخفض القسط ويرفعه، يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار، وعمل النهار قبل عمل الليل، حجابه النور لو كشفه لاحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور پانچ باتیں بیان فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سوتا نہیں اور اس کے لیے مناسب بھی نہیں کہ سوئے، میزان کو اوپر نیچے کرتا ہے، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس تک پہنچا دیا جاتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر اس کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیات ان ساری مخلوقات کو جہاں تک اس کی نظر پہنچے جلا دیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 79 (179)، (تحفة الأشراف: 9146)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/395، 400، 405) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے اللہ تعالی کے لئے صفت «نور» اور «وجہ» (چہرہ) ثابت ہوا، لیکن اس کی کیفیت مجہول اور غیر معلوم ہے، اہل سنت یہی کہتے ہیں کہ رب عزوجل کے لئے صفت «وجہ» (چہرہ) ہے، مگر ایسا کہ جیسا اس کی شان کے لائق ہے، ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کی کوئی تاب نہیں لا سکتا۔

It was narrated that Abu Musa said: "The Messenger of Allah stood up among us and said five things. He said: 'Allah does not sleep, and it is not befitting that He should sleep. He lowers the Scales and raises them. The deed done during the day is taken up to Him before the deed done during the night, and the deed done during the night before the deed done during the day. His Veil is Light, and if He were to remove it, the glory of his Face would burn everything of His creation, as far as His gaze reaches.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 196
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا المسعودي ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله لا ينام، ولا ينبغي له ان ينام يخفض القسط ويرفعه، حجابه النور لو كشفها لاحرقت سبحات وجهه كل شيء ادركه بصره"، ثم قرا ابو عبيدة: ان بورك من في النار ومن حولها وسبحان الله رب العالمين سورة النمل آية 8.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، حِجَابُهُ النُّورُ لَوْ كَشَفَهَا لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ كُلَّ شَيْءٍ أَدْرَكَهُ بَصَرُهُ"، ثُمَّ قَرَأَ أَبُو عُبَيْدَةَ: أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة النمل آية 8.
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ سوتا نہیں اور اس کے لیے مناسب بھی نہیں کہ سوئے، میزان کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے، اس کا حجاب نور ہے، اگر وہ اس حجاب کو ہٹا دے تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جہاں تک اس کی نظر جائے، پھر ابوعبیدہ نے آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: «أن بورك من في النار ومن حولها وسبحان الله رب العالمين» کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے وہ جو اس کے آس پاس ہے اور اللہ جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے (سورة النمل: 8)۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Abu Musa said: "The Messenger of Allah said: 'Allah does not sleep, and it is not befitting that He should sleep. He lowers the Scales and raises them. His Veil is Light, and if He were to remove it, the glory of his Face would burn everything of His creation, as far as His gaze reaches.' " Then Abu 'Ubaidah recited the verse: 'Blessed is whosoever is in the fire, (i.e. the light of Allah) and whosoever is round about it! And Glorified is Allah, the Lord of all that exists."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 197
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا محمد بن إسحاق ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" يمين الله ملاى لا يغيضها شيء، سحاء الليل والنهار، وبيده الاخرى الميزان يرفع القسط ويخفض"، قال: ارايت ما انفق منذ خلق الله السماوات والارض؟ فإنه لم ينقص مما في يديه شيئا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى لَا يَغِيضُهَا شَيْءٌ، سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَبِيَدِهِ الْأُخْرَى الْمِيزَانُ يَرْفَعُ الْقِسْطَ وَيَخْفِضُ"، قَالَ: أَرَأَيْتَ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ مِمَّا فِي يَدَيْهِ شَيْئًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا رہتا ہے پھر بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے، وہ اسے پست و بالا کرتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا غور کرو کہ آسمان و زمین کی تخلیق (پیدائش) سے لے کر اس نے اب تک کتنا خرچ کیا ہو گا؟ لیکن جو کچھ اس کے دونوں ہاتھ میں ہے اس میں سے کچھ بھی نہ گھٹا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 4 (3045)، (تحفة الأشراف: 13863)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر ھود 2 (4684)، التوحید 19 (4711)، صحیح مسلم/الزکاة 11 (993)، مسند احمد (2/500) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: رات دن کی سخاوت کے باوجود اللہ عزوجل کے خزانے سے کچھ بھی کمی نہیں ہوئی، اسی کے پاس سارے خزانے ہیں، اس نے کسی کو نہیں سونپے، آسمان و زمین والوں کا رزق اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، وہی سب کو رزق دیتا ہے، حلال ہو یا حرام، اہل سنت کا یہی مذہب ہے۔

It was narrated from Abu Hurairah that: The Prophet said: "The Right Hand of Allah is full and that is never affected by the continuous spending, night and day. In His other Hand, is the Scale, which He raises and lowers. Have you seen what Allah has spent since He created the heavens and the earth? And that has not decreased what is in His Hands in the slightest.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 198
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا هشام بن عمار ، ومحمد بن الصباح ، قالا: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، حدثني ابي ، عن عبيد الله بن مقسم ، عن عبد الله بن عمر ، انه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر يقول: ياخذ الجبار سماواته وارضه بيده، وقبض بيده فجعل يقبضها ويبسطها، ثم يقول:" انا الجبار اين الجبارون اين المتكبرون؟"، قال: ويتميل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن يمينه وعن يساره، حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من اسفل شيء منه، حتى إني اقول اساقط هو برسول الله صلى الله عليه وسلم.
(قدسي) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: يَأْخُذُ الْجَبَّارُ سَمَاوَاتِهِ وَأَرْضَهُ بِيَدِهِ، وَقَبَضَ بِيَدِهِ فَجَعَلَ يَقْبِضُهَا وَيَبْسُطُهَا، ثُمَّ يَقُولُ:" أَنَا الْجَبَّارُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟"، قَالَ: وَيَتَمَيَّلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ يَتَحَرَّكُ مِنْ أَسْفَلِ شَيْءٍ مِنْهُ، حَتَّى إِنِّي أَقُولُ أَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: «جبار» (اللہ تعالیٰ) آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کی اور پھر اسے باربار بند کرنے اور کھولنے لگے) اور فرمائے گا: میں «جبار» ہوں، کہاں ہیں «جبار» اور کہاں ہیں تکبر (گھمنڈ) کرنے والے؟، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھکنے لگے یہاں تک کہ میں نے منبر کو دیکھا کہ نیچے سے ہلتا تھا، مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ وہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گر نہ پڑے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/صفات المنافقین 1 (2788)، (تحفة الأشراف: 7315)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التوحید 19 (7412)، سنن ابی داود/السنة 21 (4732)، سنن النسائی/الکبری 18 (7689)، مسند احمد (2/72)، سنن الدارمی/الرقاق 80 (2841) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے صاف ثابت ہوا کہ صفات باری تعالیٰ میں لفظ «ید» (ہاتھ) سے حقیقی «ید» ہی مراد ہے، اس کی تاویل قدرت و طاقت اور اقتدار سے کرنا گمراہی ہے۔

It was narrated that 'Abdullah bin 'Umar said: "I heard the Messenger of Allah say, when he was on the pulpit: 'The Compeller will seize the heavens and the earth in His Hand' and he clenched his fist and began to open and close it. Then He will say: "I am the Compeller! Where are the tyrants? Where are the arrogant?" He said, the Messenger of Allah was turning to his right and to his left, until he saw the pulpit moving from below and I thought: 'What if it falls with the Messenger of Allah on it?'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 199
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا صدقة بن خالد ، حدثنا ابن جابر ، قال: سمعت بسر بن عبيد الله ، يقول: سمعت ابا إدريس الخولاني ، يقول: حدثني النواس بن سمعان الكلابي ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما من قلب إلا بين إصبعين من اصابع الرحمن إن شاء اقامه، وإن شاء ازاغه"، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يا مثبت القلوب ثبت قلوبنا على دينك"، قال:" والميزان بيد الرحمن يرفع اقواما، ويخفض آخرين إلى يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي النَّوَّاسُ بْنُ سَمْعَانَ الْكِلَابِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ قَلْبٍ إِلَّا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ إِنْ شَاءَ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَزَاغَهُ"، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَا مُثَبِّتَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلَى دِينِكَ"، قَالَ:" وَالْمِيزَانُ بِيَدِ الرَّحْمَنِ يَرْفَعُ أَقْوَامًا، وَيَخْفِضُ آخَرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ہر شخص کا دل اللہ تعالیٰ کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہے، اگر وہ چاہے تو اسے حق پر قائم رکھے اور چاہے تو اسے حق سے منحرف کر دے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے: اے دلوں کے ثابت رکھنے والے! تو ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اور ترازو رحمن کے ہاتھ میں ہے، کچھ لوگوں کو بلند کرتا ہے اور کچھ کو پست، قیامت تک (ایسے ہی کرتا رہے گا)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11715، ومصباح الزجاجة: 71)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/182) (صحیح)» ‏‏‏‏

Nawwas bin Sam'an Al-Kilabi said: "I heard the Messenger of Allah say: 'There is no heart that is not between two of the Fingers of the Most Merciful. If He wills, He guides it and if He wills, He sends it astray.' The Messenger of Allah used to say: 'O You Who makes hearts steadfast make our hearts steadfast in adhering to Your religion.' And he said: 'The Scale is in the Hand of the Most Merciful; He will cause some peoples to rise and others to fall until the day of Resurrection.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 200
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء ، حدثنا عبد الله بن إسماعيل ، عن مجالد ، عن ابي الوداك ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله ليضحك إلى ثلاثة للصف في الصلاة، وللرجل يصلي في جوف الليل، وللرجل يقاتل" اراه قال: خلف الكتيبة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْمَاعِيل ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَيَضْحَكُ إِلَى ثَلَاثَةٍ لِلصَّفِّ فِي الصَّلَاةِ، وَلِلرَّجُلِ يُصَلِّي فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، وَلِلرَّجُلِ يُقَاتِلُ" أُرَاهُ قَالَ: خَلْفَ الْكَتِيبَةِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ تین طرح کے لوگوں کو دیکھ کر ہنستا ہے: ایک نماز میں نمازیوں کی صف، دوسرا وہ شخص جو رات کے درمیانی حصہ میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے، تیسرا وہ شخص جو جہاد کرتا ہے۔ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لشکر کے پیچھے، یعنی ان کے بھاگ جانے کے بعد۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3993، ومصباح الزجاجة: 72)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/80) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں عبداللہ بن اسماعیل مجہول اور مجالد ضعیف ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2103)

It was narrated that Abu Sa'eed Al-Khudri said: "The Messenger of Allah said: 'Allah smiles at three things: a row in the prayer, a man who prays in the depths of the night, and a man who fights' I think he said, 'behind the battalion.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 201
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الله بن رجاء ، حدثنا إسرائيل ، عن عثمان يعني ابن المغيرة الثقفي ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرض نفسه على الناس في الموسم، فيقول:" الا رجل يحملني إلى قومه فإن قريشا قد منعوني ان ابلغ كلام ربي".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيَّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَى النَّاسِ فِي الْمَوْسِمِ، فَيَقُولُ:" أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے دنوں میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور فرماتے: کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے؟ اس لیے کہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام کی تبلیغ سے روک دیا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/السنة 22 (4734)، سنن الترمذی/فضائل القرآن 24 (2925)، (تحفة الأشراف: 2241)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/322، 390)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 5 (3397) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، ناکہ جبریل علیہ السلام کا، کلام اللہ کو مخلوق کا کلام کہنا گمراہوں کا کام ہے۔

It was narrated that Jabir bin 'Abdullah said: The Messenger of Allah used to appear before the people during the Hajj season and say: 'Is there any man who can take me to his people, for the Quraish have prevented me from conveying the speech (i.e. the Message) of my Lord.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 202
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا الوزير بن صبيح ، حدثنا يونس بن حلبس ، عن ام الدرداء ، عن ابي الدرداء ، عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله تعالى: كل يوم هو في شان سورة الرحمن آية 29 قال:" من شانه ان يغفر ذنبا، ويفرج كربا، ويرفع قوما، ويخفض آخرين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْوَزِيرُ بْنُ صَبِيحٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ حَلْبَسٍ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ سورة الرحمن آية 29 قَالَ:" مِنْ شَأْنِهِ أَنْ يَغْفِرَ ذَنْبًا، وَيُفَرِّجَ كَرْبًا، وَيَرْفَعَ قَوْمًا، وَيَخْفِضَ آخَرِينَ".
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے فرمان: «كل يوم هو في شأن» وہ ذات باری تعالیٰ ہر روز ایک نئی شان میں ہے (سورة الرحمن: 29) کے سلسلے میں بیان فرمایا: اس کی شان میں سے یہ ہے کہ وہ کسی کے گناہ کو بخش دیتا ہے، کسی کی مصیبت کو دور کرتا ہے، کسی قوم کو بلند اور کسی کو پست کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11005، ومصباح الزجاجة: 73) (حسن)» ‏‏‏‏ (بخاری نے تعلیقاً تفسیر سورہ الرحمن میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے، صحیح بخاری مع فتح الباری: 8/620)

It was narrated from Abu Darda' that: The Prophet said concerning the Verse: "Every day He is (engaged) in some affair." "His affairs include forgiving sins, relieving distress, raising some people and bringing others low."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.