سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
حدیث نمبر: 193
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ الْهَمْدَانِيُّ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمِيرَةَ ، عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ: كُنْتُ بِالْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ وَفِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرَّتْ بِهِ سَحَابَةٌ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، فَقَالَ:" مَا تُسَمُّونَ هَذِهِ؟"، قَالُوا: السَّحَابُ، قَالَ:" وَالْمُزْنُ"، قَالُوا: وَالْمُزْنُ، قَالَ:" وَالْعَنَانُ"، قَال أَبُو بَكْرٍ: قَالُوا: وَالْعَنَانُ، قَالَ:" كَمْ تَرَوْنَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ السَّمَاءِ؟"، قَالُوا: لَا نَدْرِي، قَالَ:" فَإِنَّ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا إِمَّا وَاحِدًا، أَوِ اثْنَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا وَسَبْعِينَ سَنَةً، وَالسَّمَاءُ فَوْقَهَا كَذَلِكَ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ، ثُمَّ فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَعْلَاهُ وَأَسْفَلِهِ كَمَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ فَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلَافِهِنَّ وَرُكَبِهِنَّ كَمَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ عَلَى ظُهُورِهِنَّ الْعَرْشُ بَيْنَ أَعْلَاهُ وَأَسْفَلِهِ كَمَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَى سَمَاءٍ، ثُمَّ اللَّهُ فَوْقَ ذَلِكَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى".
عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک جماعت کے ہمراہ مقام بطحاء میں تھا، اور ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے کہ بادل کا ایک ٹکڑا گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”تم لوگ اس کو کیا کہتے ہو؟“، لوگوں نے کہا: «سحاب»، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مزن» بھی؟“، انہوں نے کہا: جی ہاں، «مزن» بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «عنان» بھی؟“، لوگوں نے کہا: «عنان» بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ جانتے ہو؟“، لوگوں نے کہا: ہم نہیں جانتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اور اس کے درمیان اکہتر (۷۱)، بہتر (۷۲)، یا تہتر (۷۳) سال کی مسافت ہے، پھر اس کے اوپر آسمان کی بھی اتنی ہی مسافت ہے“، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح سات آسمان شمار کیے، پھر فرمایا: ”ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے، اس کے نچلے اور اوپری حصہ کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان میں ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی طرح ہیں، ان کے کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان ہے، پھر ان کی پیٹھ پر عرش ہیں، اس کے نچلے اور اوپری حصہ کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی کہ دو آسمانوں کے درمیان میں ہے، پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے جو بڑی برکت والا، بلند تر ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/السنة 19 (4723)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن 67 (3320)، (تحفة الأشراف: 5124)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/ 206، 207) (ضعیف)» (حدیث کی سند میں مذکور راوی ''الولید بن أبی ثور الہمدانی'' ضعیف ہیں، ''عبد اللہ بن عمیرہ'' لین الحدیث، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1247)
وضاحت: ۱؎: اگرچہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے، لیکن اس حدیث سے مصنف نے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت علو ثابت کیا ہے، جب کہ یہ صفت کتاب و سنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے اور ائمہ اسلام کا اس پر اجماع ہے، اس میں تاویل کی قطعاً گنجائش نہیں، یہاں پر علو سے مراد علو معنوی نہیں بلکہ حسی اور حقیقی علو ہے، اور یہ امر فطرت انسانی کے عین موافق ہے، لیکن معتزلہ و جہمیہ کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ وہ اس کی تاویل کرتے اور اس کا انکار کرتے ہیں، اور جس بات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقلاً، حسا، لفظاً اور معناً بیان فرما دیا ہے اس میں شک کرتے ہیں، ائمہ دین نے اس مسئلہ میں مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں ہیں، جیسے ”كتاب العلو للعلي الغفار“ للامام الذہبی۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (4723) ترمذي (3320)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 381